جو لوگ ربّ العالمین کے در سے اپنی نسبت اُستوار کر لیتے ہیں اور حقِ بندگی ادا کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کردیتے ہیں،  وہ ساری کائنات کے لئےمعزز و محترم ٹھہرتے ہیں، دنیا ایسے لوگوں کی سیرتوں سے روشنی حاصل کرتی ہے، خواہ دنیا سے گزرے انہیں صدیاں بیت جائیں، انہی میں سے ایک عظیم ہستی حضرت سیّدہ، طیبہ، طاہرہ، زاہدہ، فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہیں۔

کہ ان کی سیرت ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے اور ان کی سیرت سے تمام اسلامی بہنوں کو بہت درس ملتا ہے، زندگی کا کوئی پہلو ہو، بچپن سے لے کر جوانی اور وصال تک آپ رضی اللہ عنہا کی زندگی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے، بچپن سے متین، سنجیدہ اور پاکباز تھیں، اپنے کام خود فرماتی تھیں، کام کاج کے ساتھ عبادت بھی فرماتیں، اسی طرح پڑوس کا خیال کرنا لازمی سمجھتی تھیں، بخاری شریف کی بہت سی روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس صاحبزادی حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی معمول تھا کہ وہ اپنے گھر کا سارا کام کاج خود فرماتیں، کنویں سے پانی بھر کر اور اپنی پیٹھ مبارک پر مشک لاد کر پانی لایا کرتی تھیں، چکی پیستی تھیں مبارک ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے۔

مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں کہ عورت کے فرائض میں یہ بھی ہے کہ اگر شوہر غریب ہو اور گھریلو کام کاج کے لئے نوکرانی رکھنے کی طاقت نہ ہو تو اپنے گھر کا کام کاج خود کر لیا کرے، اگر گھریلو کام کاج تھکا دیں تو سیرتِ فاطمہ کے مطالعہ اور تسبیحِ فاطمہ کے ورد سے اس کا علاج کیجئے۔

حدیث مبارکہ:

امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ ماجدہ کو دیکھا کہ رات کو مسجدِ بیت کے محراب میں نماز پڑھتی رہتیں، یہاں تک کہ نمازِ فجر کا وقت ہو جاتا، میں نے آپ رضی اللہ عنہا کو مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے بہت زیادہ دعائیں کرتے سنا، آپ رضی اللہ عنہا اپنی ذات کے لئے کوئی دعا نہ کرتیں، میں نے عرض کی، پیاری امّی جان! کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے لیے کوئی دعا نہیں کرتیں، فرمایا" پہلے پڑوس ہے پھر گھر ۔"( مدارج النبوۃ، ج2)

اس واقعہ میں ان اسلامی بہنوں کے لئے کئیں نصیحت آموز مدنی پھول ہیں، جو نوافل تو درکنار فرائض سے بھی غفلت برتتی ہیں۔

پیاری اسلامی بہنو! سیرتِ فاطمہ پر ہمارے دل و جان قربان، آپ رضی اللہ عنہا کو اُمّتِ مسلمہ کا کس قدر د رد تھا کہ ساری ساری رات دعائیں مانگتی رہتیں، ہم نادا ن ہیں کہ ہمسایوں کا ہمیں خیال تک نہیں۔

آپ رضی اللہ عنہا کی گفتگو اور چال چلنے کا انداز بالکل آپ علیہ السلام سے مشابہت رکھنے والا تھا ۔

اسلامی بہنوں میں سے بعض تو چلا چلا کر باتیں کرتی ہیں، آپ رضی اللہ عنہا کی سیرتِ مبارکہ سے یہ بھی پتہ چلا کہ کسی سے چلا چلا کر بات نہیں کرنی چاہئے، بلکہ نرم لہجہ اپنائیے۔

مولا مشکل کشا حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے موت کے وقت وصیت فرمائی تھی کہ جب دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو رات میں دفن کرنا تاکہ کسی غیر مرد کی نظر میرے جنازے پر نہ پڑے۔( مدارج النبوۃ، ج2)

تمام اسلامی بہنیں دنیا و آخرت میں کامیابی پانے، با پردہ، باعزت زندگی گزارنے اور شرم وحیا کے ساتھ جینے کا ڈھنگ سیکھنے کے لئے تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی سے ہر دم وابستہ رہیں۔

آج مسلمان عورتوں کی حالت ایسی ہے کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے ، پردے کا تصور ہی نہیں رہا۔

سنتوں کا ہو عطا درد مسلمانوں کو

فیشن کی ہے یلغا رسولِ عربی