مشر ک قوموں میں مختلف چیزوں  سے بُرا شگون لینے کی رسم بہت پُرانی ہے اور ان کے تَوَہُم پرست لو گ ہر چیز سے اثر قبول کر لیتے، مشرک قومیں پرندے کو اڑا کر اس سے فال لیتے تھے ،پرندے کے دائیں طرف اُڑنے سے اچھا فال لیتے اور بائیں طرف اُڑنے سے بد شگونی لیتے تھے۔اور بھی بہت سی چیزوں سے بد شگو نی لی جاتی تھی جیسے پرندوں کے ناموں سے ، آواز سے ،رنگوں سے، اور عقاب سے مصیبت، کوے سے سفر ، ہد ہد سے سے ہدایت کی فال لیتے۔ اسی طرح کوئی شخص کسی کام کو نکلتا اور راستے میں کوئی جانور سامنے سے گزر گیا یا کسی مخصوص پرندے کی آواز کان میں پڑ جاتی تو فوراً گھر واپس لوٹ آتا۔ اسی طرح کے تصورات اور خیالات ہمارے معاشرے میں بہت پھیلے ہوئے ہیں ۔ اسلام اس طرح کی تَوَہُم پرستی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اور اسلام نے جہاں دیگر مشرکانہ رسموں کی جڑیں ختم کیں وہیں اس نے بد شگونی کا بھی خاتمہ کر دیا ۔ کسی مسلمان کو یہ زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ کسی چیز سے بد شگونی لے ،کیوں کہ یہ تو مشرکوں کا سا کام ہے جیساکہ حدیث مبارکہ میں بد شگونی کو شرک فرمایا گیا ہے۔چنانچہ

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" شگون شرک ہے ، شگون شرک ہے ، شگون شرک ہے ،" ( یعنی مشرکوں کا سا کام ہے) اور ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں، اللہ تعالیٰ اسے تو کُّل کے ذریعے دور کر دیتا ہے۔

( ابو داؤد،کتاب الطب، باب فی الطیرۃ،4/23 الحدیث:3910)

نوٹ:شگون شرک ہے اس سے مراد یہ ہے کہ (جب کوئی شخص بدشگونی کے افعال کو مؤثِّرِ حقیقی جانے تو شرک ہے )

علامہ محمد بن احمد اَنصاری قُرطبی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر قُرطبی میں نقل کرتے ہیں اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر بُراہو تو بد شگونی ہے۔ شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پا یہ تکمیل تک پہنچائے اور جب بُرا کلام سُنے تو اس کی طرف توجہ نہ کرے او ر نہ ہی اس کے سبب اپنے کام سے رُکے۔(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی پ 26، الاحکاف تحت الآیۃ:4 ج8 جزء ، 16 ص132/ بد شگونی مکتبۃ المدینہ دعوتِ اسلامی ص10)

شگون کی تعریف و اقسام :

شگون کا معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُڑا سجھنا اس کی بنیادی طور پردو قسمیں ہیں : (1)بُرا شگون لینا(2) اچھا شگون لینا

بد شگونی کا علاج:

حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جسے کسی چیز کی بد فالی نے اس کے مقصد سے لوٹا دیا اُس نے شرک کیا۔ عرض کی گئی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا شخص کیا کفارہ دے؟ ارشاد فرمایا: یہ کہے" اَللّٰھُمَّ لَا طَیْرَ اِلّا طَیْرُکَ وَلَاخَیْرَ اِلَّاخَیْرُکَ وَ لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ" اے اللہ تیری فال کے علاوہ اور کوئی فال نہیں ، تیری بھلائی کے سوا اور کوئی بھلائی نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔( یہ الفاظ کہہ کر اپنے کام کو چلا جائے۔)

(مسند امام احمد ، مسند عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ 1/683، الحدیث 7066)

حضرت عروہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شگون کا ذکر کیا گیا تو فرمایا:" اس میں ( نیک) فال اچھی چیز ہے اور مسلمانو ں کو کسی کام سے نہ روکے ،تو جب تم میں سے کوئی نا پسند یدہ چیز دیکھے تو یوں کہے " اَللّٰھُمَّ لَا یَاتِیْ بِالْحَسَنَاتِ اِلَّا اَنْتَ وَ لَا یَدْفَعُ السَّیِّآَتِ اِلَّا اَنْتَ وَ لَا حَولَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلّا بِکَ" ( یعنی اے اللہ ! تیرے سوا کوئی بھلائیاں نہیں لاتا اور تیرے سوا کوئی برائی دو ر نہیں کرتا ، نہ ہم میں طاقت ہے اور نہ قوت مگر تیری توفیق کے ساتھ) ( ابو داؤد،کتاب الطب، باب فی الطیرۃ،4/23 الحدیث:3910)

بد شگونی کی مثالیں:

ہمارے معاشرے میں جہالت کی وجہ سے رواج پانے وا لی خرابیوں میں سے ایک بدشگونی بھی ہے جس کو بد فالی بھی کہتے ہیں جبکہ عربی میں اسے طائِرٌ، طَیْرٌ اور طِیَرَۃٌ کہا جا تا ہے ان بد شگونیوں میں سے 5 مندرجہ ذیل ہیں :

(1) بیوہ یا وہ عورت جس کا پہلا حمل ضائع ہو گیا ہو یا جس کاپہلی اولاد نا بالغی میں انتقا ل کر گئی ہو تو ایسی عورت کو شادی بیاہ کی رسومات میں شامل ہونے سے روکا جاتا ہے کیوں کہ اس سے یہ بد شگونی لی جاتی ہے کہ اگر ایسی عورت ان رسومات میں شرکت کرے گی تو اس سے بُرا اثر ہوگا۔اسی طرح ایسی عورت کو نئی دلہن کے کپڑوں تک کو چھونے نہیں دیا جاتاکیوں کہ اس سے دلہن کی زندگی پر بُرا اثر پڑے گا۔

(2)شیشے کا گلاس اگر صبح کے وقت ٹوٹ جائے تو اس سے یہ بد شگونی لی جاتی ہے کہ بلا ٹل گئی اور اگر شام کے وقت ٹوٹے کو یہ بد شگونی لی جاتی ہے کہ اب کوئی نہ کوئی مصیبت آئے گی۔

(3)دلہا شادی کے ایام میں سسرال نہیں جا سکتا اس سے یہ بد شگونی لی جاتی ہے کہ اگر دلہا شادی کے ایام میں اپنے سسرال گیا تو ساس اور داماد یا دلہن اور دلہا کے درمیان نفرتیں اور نا چاکیاں پیدا ہو جائیں گی۔

(4)جس عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو عدتِ وفات کے دوران اپنا چہرہ کھول کر چاند یا سورج کے سامنے نہ جائے اگر گئی تو چاند یا سورج سے نکاح ہو جاتا ہے۔

(5)اگر کسی کے پاس پیسہ(رقم ) نہ ہو اور وہ کہے میرے پاس پیسے نہیں ، میرے پاس پیسے نہیں تو اس جملے سے یہ بد شگونی لی جاتی ہے کہ جو ہر وقت یہ کہتا رہتا ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں تو اس کے پاس کبھی پیسے آتے بھی نہیں اور نہ اس کے پاس کبھی پیسے جمع ہو سکتے ہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو اور قارئین کسی شخص، جگہ، چیز یا وقت کو منحوس جاننے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے اسی نوعیت کا سوال ہوا کہ ایک شخص کے متعلق مشہور ہے اگر صبح کو اس کی منحوس صورت دیکھ لی جائے یا کہیں کام کو جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضرور کچھ نہ کچھ دِقت اور پریشانی اٹھانی پڑے گی اور چاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہو جانے کا اعتماد اور بھروسہ ہو لیکن ان کا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور رکاوٹ اور پریشانی ہوگی چنانچہ ان لوگوں کو ان کے خیال کے مناسب ہر بار تجربہ ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر کہیں جاتے ہوئے اس سے سامنا ہوجائے تو اپنے مکان پر واپس آ جاتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد یہ معلوم کرکے کہ وہ منحوس سامنے تو نہیں! اپنے کام کے لئے جاتے ہیں۔  اب سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور طرزِ عمل کیسا ہے؟ کوئی قباحتِ شرعیہ تو نہیں؟ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا : شرعِ مطہر میں اس کی کچھ اصل نہیں لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے۔ شریعت میں حکم ہے ( اِذَا تَطَيَّرْتُمْ فَامْضُوْا ) یعنی جب کوئی شگونِ بَد گمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔

( فتح الباری، کتاب الطب، باب الطیرة ، 181/ 11 تحت الحدیث: 5754)

وہ طریقہ محض ہندوانہ ہے مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہیے کہ "اللّٰهم لَا طَيْرَ اِلَّا طَيْرُكَ وَلَا خَيْرَ اِلَّا خَيْرُكَ وَلَا اِلٰهَ غَيْرُكَ" پڑھ لے ترجمہ (اے اللہ نہیں ہے کوئی بُرائی مگر تیری طرف سے نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ) اور اپنے رب کریم پر بھروسہ کر کے اپنے کام کو چلا جائے ، ہرگز نہ رُکے، نہ واپس آئے۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔

(فتاویٰ رضویہ 29/641 ملخصاً)

شگون کی قسمیں : شگون کا معنیٰ ہے فال لینا یعنی کسی شخص، چیز، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا برا سمجھنا۔ اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: 1۔ بُرا شگون لینا 2 ۔ اچھا شگون لینا

علامہ محمد بن احمد انصاری القرطبی رحمۃ اللہ علیہ تفسیرِ قرطبی میں نقل کرتے ہیں: اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر برا ہوں تو بدشگونی ہے۔

شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہوں اور اپنا کام خوشی خوشی پایئہ تکمیل تک پہنچائے اور جب برا کلام سنے تو اس کی طرف توجہ نہ کرے اور نہ ہی اس کے سبب اپنے کام سے رکے۔

(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، پ 26 ،الحقاف، الآیہ: 4 ،ج8 ، جزء 16، ص 132)

اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدفالی لینے والوں سے اپنی بیزاری کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا : "لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَطَيَّرَ وَلَا تُطُيِّرَ لَه" یعنی جس نے بدشگونی لی اور جس کے لیے بدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں (یعنی ہمارے طریقے پر نہیں)

(المعجم الکبیر ، 18/162 حديث 355 و فیض القدیر، 3/288 تحت الحدیث: 3206)

بد شگونی لینا عالَمی بیماری ہے مختلف ممالک میں رہنے والے مختلف لوگ مختلف چیزوں سے ایسی ایسی بدشگونی لیتے ہیں کہ انسان سن کر حیران رہ جاتا ہے چنانچہ بدشگونی کی مثالیں ملاحظہ کیجیے :

1: کبھی مہمان کی رخصتی کے بعد گھر میں جھاڑو دینے کو منحوس خیال کرتے ہیں۔

2: کبھی یہ خیال کرتے ہیں کہ خالی قینچی چلانے سے گھر میں لڑائی ہوتی ہے ۔

3: عید جمعہ کے دن ہو جائے تو اسے حکومتِ وقت پر بھاری سمجھتے ہیں ۔

4: کبھی یہ خیال کرتے ہیں سورج گرہن کے وقت حاملہ عورت چھری سے کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ پیدا ہوگا تو اس کا ہاتھ یا پاؤں کٹا یا چِرا ہوا ہوگا ۔

5 : کبھی یہ خیال کرتے ہیں کہ مغرب کی اذان کے وقت تمام لائٹیں روشن کر دینی چاہیے ورنہ بلائیں اترتی ہیں ۔

مذکورہ بالا بدشگونیوں کے علاوہ بھی مختلف معاشروں، قوموں، برادریوں میں مختلف بد شگونیاں پائی جاتی ہے۔

حضرت سیدنا امام محمد آفندی رومی رحمۃ اللّٰہ علیہ الطریقہ المحمدیہ میں لکھتے ہیں بد شگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مستحب ہے ( الطریقہ المحمدیہ ،2/ 18، 24)

نیک فال یا اچھا شگون لینا بدشگونی کی ضد ہے یعنی کسی چیز کو اپنے لئے باعثِ خیر و برکت سمجھنا اور یہ مستحب ہے مثلًا بزرگان دین کی زیارت ہونا، بدھ کے دن نیا سبق شروع کرنا، پیر اور جمعرات کو سفر شروع کرنا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نیک فال لینا پسند تھا چنانچہ ارشاد فرمایا بدفالی کوئی چیز نہیں اور فال اچھی چیز ہے لوگوں نے عرض کی فال کیا چیز ہے فرمایا "اچھا کلمہ جو کسی سے سنے"۔(بخاری، کتاب الطب، باب الطیرہ ،4 / 32، حديث: 5754)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بدشگونی اور بد فالی سے بچائے اور ہمیں اچھا شگون و حسن ظن اور اچھے فال لینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

ماخوذ ( کتاب " بدشگونی" ص 8 ، 10 ، 12 ،15 تا 19 اور 113 )


شُگُون کا معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز، شخص، آواز، عمل یا وقت آنے کو حق میں اچھا یا برا سمجھنا۔اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں : (1) برا شگون لینا (2) اچھا شگون لینا۔ علامہ محمد بن احمد انصاری قرطبی علیہ الرحمة تفسیرِ قرطبی میں نقل کرتے ہیں: اچھا شگون یہ کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو اس کر بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے جب کلام اچھا ہو ، اگر بُرا ہو تو بد شگونی ہے۔ شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پایہ تکمیل تک پہنچاۓ اور جب بُرا کلام سنے تو اس کی طرف توجّہ نہ کرے اورنہ ہی اس کے سبب اپنے کام سے رکے ۔

( الجامع الاحکام القرآن للقرطبی ،پ 26، الاحقاف، تحت الآیہ 4 ، ج 8 ، جز ٕ 16 ، ص132 )

ہمارا معاشرہ بھی بد شگونی کا سخت شکار ہے بالخصوص خواتین کہ ایسی ایسی بد شگونیاں لیتیں ہیں کہ انسان سن کر حیران رہ جاتا ہے۔ جس میں سے پانچ بد شگونیاں مندرجہ ذیل ہیں :

1) نئی دلہن کو منحوس سمجھنا : نئی نویلی دلہن کے گھر آنے پر خاندان کا کوئی شخص فوت ہو جائےتو دلہن کو منحوس سمجھنا ۔

2) لڑکیوں کی مسلسل پیدائش کو منحوس سمجھنا: کسی عورت کی صرف بیٹیاں ہی پیدا ہوں تو اس پر منحوس ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے ۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمة سے اسی طرح کا لگاتار بیٹیوں کی پیدائش کو برا سمجھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ علیہ الرحمة نے جواب ارشاد فرمایا کہ: یہ محض باطل اور زنانہ اوہام اور ہندوانہ خیالاتِ شیطانیہ ہیں ان کی پیروی حرام ہے۔

(فتاوی رضویہ ، 29 / 644 ، 696 مخلصاً )

3) میت سے بچے پر بُرا اثر سمجھنا : حاملہ عورت کو میت کے قریب نہیں آنے دیتے کہ بچے پر بُرا اثر پڑے گا ۔

4) جوان بیوہ کو منحوس سمجھنا : جوانی میں بیوہ ہو جانے والی کو منحوس جانتے ہیں۔

5) گرہن سے جڑےہوئے توہمات : گرہن کے وقت حاملہ خواتین کو کمرے کے اندر رہنے اور سبزی وغیرہ نہ کاٹنے اور سلائی کڑھائی نہ کرنے کا کہاجاتا ہے کہ بچے پیدائش نقص کے بغیر پیدا ہوں ورنہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بچے کے جسم پر غلط اثر پڑ سکتا ہے۔ الامان والحفیظ