اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کائنات کو بنایا ،دیکھا جائے تو کائنات میں
سب سے زیادہ محتاج مخلوق انسان کی ہے کیونکہ سب سے زیادہ خواہشات انسان کی ہیں۔
انسان کی خواہشات، ضرورتوں اور حاجتوں کی کوئی حد نہیں اور بے شک اللہ پاک ہی کی ہستی ہے جو اس کی ہر حاجت
پوری کرنے کے لیے بے شمار خزانے رکھے ہیں اور بے شک وہ ہر حاجت پوری کرنے پر قادر
ہے۔ اللہ رب العالمین
کے انسان پر اتنے احسانات ہیں کہ اگر انہیں انسان گنے اور اس کا شکر ادا کرنا شروع
کر دے تو اس کیلئے اس کی تمام زندگی اور سانسیں کافی نہیں ہوں گی ، پھر بھی اس پر
شکر ادا کرنے کا حق باقی رہے گا۔ بے شک ہر نعمت دینے والا اللہ
عَزَّوَجَلَّ ہی ہے چاہے وہ دین و دنیا کی نعمت ہو یا ظاہری
اور باطنی نعمتیں ہوں۔
ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت دین اسلام ہے
اور یہ دین ہم تک پہنچانے کیلئے اللہ تعالی نے
ہمارے درمیان اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
کو اللہ تعالی نے رحمت اللعالمین کہا ۔ارشاد باری تعالی ہے :
ہم نے
آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو
تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔"(الانبیاء107)۔
اللہ نے
اس دنیا میں ہمیں سیدھا اور صحیح راستہ دکھانے کے لئے آپ صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک کو معیار بنایا۔ قرآن پاک میں اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے :
" تمہارے لئے رسول
اللہ(
صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی زندگی میں
خوبصورت نمونہ ہے۔"(الاحزاب21)۔
یعنی آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ہم اس دنیا میں اپنی زندگی بسر کریں اس لئے کہ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا پسندیدہ ترین طریقہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ
عَزَّوَجَلَّ نے خاتم النبیین بنایا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کوئی پیغمبر
نہ آیا اور نہ ہی آئے گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انسان کی ہدایت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پر
آکر مکمل ہوا ۔
سورہ
احزاب ،آیت نمبر 40 میں اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے : " محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ تو اللہ کے
رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں
اور نبیوں کی نبوت ختم کرنے والے ہیں۔"
یعنی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
بعد کوئی نبی کوئی پیغمبر نہ آیا اور نہ آئے گا۔
آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سب کے رہنما ہیں۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم دنیا کے کامیاب ترین انسان ہیں اور جو بھی دنیا اور آخرت میں
کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور اتباع کیے بغیر کامیابی کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ
اللہ وحدہٗ لاشریک کا فرمان ہے: "کہہ دو کہ اگر تم
اللہ
کے ساتھ محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو اللہ تمہیں
محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔" (آل عمران31)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالی اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دن رات فرشتے درود و سلام
بھیجتے ہیں اور دعائے رحمت کرتے ہیں۔ آپ صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر کی قسم اللہ تعالی نے
اپنی کتاب قرآن مجید میں یاد فرمائی ۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اللہ تعالیکی
اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔
آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے بڑھنے کی اہل ایمان کو اجازت نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے
بلند آواز کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں جنت ہے۔ جہاں اللہ
تعالی نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
محبت کی غرض بھی اطاعت ہی ہے۔ اللہ تعالی نے
ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
اتباع کا حکم دیا کہ اگر تم آپ کی پیروی کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔ارشادِ ربانی ہے:
" کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
بھائی بیویاں قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے
ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے
اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنا عذاب لے آئے، اللہ
عَزَّوَجَلَّ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔"(التوبہ24)۔
یعنی وہ قریب ترین رشتہ دار اولاد، بیوی، ماں ،باپ
جن کے ساتھ انسان شب و روز گزارتا ہے اور مال و اسباب، کاروبار یہ سب چیزیں اپنی
جگہ اہمیت اور افادیت کی حامل ہیں لیکن اگر ان کی محبت
اللہ
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
محبت سے زیادہ ہو جائے تو یہ بات اللہ تعالیکو
سخت ناپسندیدہ ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی کا باعث ہے جس سے انسان اللہ تعالی کی ہدایت سے محروم ہوسکتا ہے جس طرح
کہ آخری الفاظ سے واضح ہے اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
کی حدیث نے بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔ آپ
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
"قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری
جان ہے، تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں جب تک میں اس کو اس کے والد سے اس
کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب
نہ ہو جاؤں۔" (صحیح بخاری:کتاب الایمان)۔
ایک
موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
اپنے نفس کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جب تک میں آپ کو اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ
ہو جاؤں اس وقت تک آپ کامل مومن نہیں تو
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پس واللہ اب
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے عمر ! اب تم کامل مومن ہو۔(بخاری و مسلم) ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں آپ
صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا معیار بتا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا
تقاضا یہ ہے کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے محبت اپنی جان و مال اولاد والدین عزیزواقارب حتیٰ کہ ہر
عزیز چیز سے زیادہ ہونی چاہیے اور یہی دین و ایمان کی اساس اور بنیاد ہے اور اگر
اس میں کمی ہوگی تو دین و ایمان میں کمی اور خامی باقی رہ جائیگی۔
ڈاکٹر
اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
گویا اگر کوئی شخص اللہ تعالی سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ محبت اس وقت تک
سچی قرار نہیں پاتی جب تک وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ہر معاملے میں نہ کرے ۔کسی شخص کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتی جب تک وہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
اتباع نہ کرے اور یہی اصل محبت کا تقاضا ہے۔
بات
سمجھنے کی ہے کہ اللہ اور اس کے
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
راضی کرنے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
محبت لازمی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
محبت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
کی اطاعت اور پیروی کی جائے اور اپنی تمام زندگی کو آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔
اصل
محبت تو یہی ہے اور انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی اطاعت کرتا ہے، اس کی فرمانبرداری
کرتا ہے، اس کی پسند ناپسند کو اپنی پسند ناپسند بنا لیتا ہے، اپنے محبوب کو جیسا
کرتے پایا خاموشی سے ویسا ہی کرتے چلے جانا ،اُسے اپنے محبوب کی رضا مطلوب ہوتی ہے
اور وہ اس کی ناراضگی سے بچتا ہے، اور ہر وقت ہر محفل میں اپنے محبوب کا تذکرہ
کرنا اسے اچھا لگتا ہے۔ اسے اپنے محبوب کے ذکر میں راحت محسوس ہوتی ہے۔
محبت کا ایک اور تقاضا یہ بھی ہے کہ جس سے محبت
ہوتی ہے تو اس کی سوچ اور فکر کو بھی آگے پہنچایا جاتا ہے اور اپنے محبوب کے مشن
کو آگے پھیلانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اسے اپنے محبوب کی ہر ادا سے محبت ہوتی
ہے اور یہی تمام چیزیں ہمیں صحابہ کرام کی زندگیوں سے ملتی ہیں اور جس کی بے شمار
مثالیں ہمیں مختلف کتابوں میں ملتی ہیں ۔
اسلاف
کا انداز :
صحابہ کرام کی محبت کا تو یہ عالم تھا کہ جب
انہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی
پسند اور ناپسند کا پتہ چلتا تو اس پر بغیر کسی حیل و حجت کے عمل فرماتے یہاں تک
کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
پہننے ، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے ،چلنے پھرنے اور آپ کی ہر ہر ادا کو اپنا لیا
تھا اور اپنی زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
کی محبت کے سانچے میں ڈھال لیا تھا ۔سبحان اللہ… اور یہی وجہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت ایسے لوگوں کیلئے واجب ہو گی جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس درجے
تک محبت کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع
کرنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
محبت کا اصل تقاضا ہے اور اصل محبت تو یہی ہے کہ ہم آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں ،آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی پسند ناپسند کو اپنی پسند ناپسندبنا لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ
کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیں اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب دل میں سچی محبت ہو اور
ہم سچی محبت کے دعوے دار ہوں ۔
میں
اور آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
محبت کرتے ہیں اور یقیناکرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا ہمارا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
ساتھ محبت کا تعلق یہ تقاضے پورے کرتا ہے؟ کیا آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہماری طرز زندگی ہے؟ کیا ہمارے عشق کی گواہی ہمارا
عمل فراہم کر رہا ہے؟ ہم اللہ اور
اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
محبت کے دعوے دار تو ہیں، تو کیا ہم اللہ اور
اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
رضا کے طلب گار رہتے ہیں؟ کیا ہماری طرز زندگی آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق ہے؟ کیا ہمارے لبوں پر ہر وقت اللہ اور اس کے محبوب کا ذکر رہتا ہے؟
لیکن جب ہم اپنی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں کیا
نظر آتا ہے ؟یہاں تو یہ عالم ہے کہ جب ربیع الاول آتا ہے تو 12 دن ہم اسے خوب
جوش و خروش اور عقیدت سے مناتے ہیں لیکن اس کے بعد کسی کو اللہ اور
اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
فرمان یا اس پر عمل کرنا یاد نہیں رہتا،ہمارے اعمال نہیں بدلتے، ہماری زندگیاں نہیں
بدلتیں، ہمارے روزوشب نہیں بدلتے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر ہم نے دنیا اور آخرت میں
کامیابی حاصل کرنی ہے تو اپنے رب کو راضی کرنا ہوگا اور اپنے رب کو ہم تب ہی راضی
کر سکتے ہیں جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے محبت کریں۔ اِسی صورت میں ہمیں اللہ کی
رضا حاصل ہو گی۔
اللہ تعالی نے آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا حبیب بنایا۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے سب سے اعلیٰ مقام دیا جو کسی نبی کو نہیں
ملا۔ اللہ تعالی نے آپ صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام کو اپنے کلمے کا حصہ بنایا" لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ"۔
اور اس طرح قیامت تک اللہ اور
اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
ذکر اکھٹا رہے گا ۔اللہ تعالی کی توحید آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ساتھ پہچانی جاتی ہے اور قیامت تک پہچانی جائے گی
ورنہ پہچان ادھوری ہے اور ہمارا ایمان ہی اسی کلمہ شہادت سے پورا ہوتا ہے۔ اسی طرح
اللہ کی محبت محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے۔ ہم اپنے رب کا قرب تب ہی
حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے غلام بن جائیں۔
اللہ کا حکم ہے کہ اگر میرا بننا ہے تو میرے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقوں
پر آنا پڑے گا۔ اپنے اللہ کو راضی
کرنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
محبت کرنی ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
سیرت مبارکہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا۔ اصل محبت کا تقاضا یہی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ
زندگی کو سیکھ کر اور اس پر عمل کرکے ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جاسکتی
ہے۔ اپنی ساری زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال دینا ہی اصل محبت ہے۔ اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے سچی محبت کے دعوے دار ہیں تو ہمیں اپنے قول و فعل سے اور
اپنے عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
لائے ہوئے دین کو لوگوں تک پہنچانا ہوگا ۔یہی اصل حب ِ رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ہم محمدی نظر آئیں۔ ہم آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے عاشق نظر آئیں اور زندگی کے ہر قدم پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں
۔یہی اللہ تعالی کے رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اصل محبت کا تقاضا ہے۔ ہم اپنی تمام تر زندگی میں بغیر کسی
حیل و حجت کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی
پیروی کریں ۔یہی محبوبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہے۔
محبت
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی جا ن گزیں فرما دے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت
اور پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں