ہر نبی اور سول کے جان نثاروں اور جوانوں نے اپنی محبت و
فاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نبی کی اطاعت و فرمانبرداری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت
نہ چھوڑا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ رسول
اکرم ، نبی محترم صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے والہانہ عشق
و محبت سے سر شار ہو کر جس شاندار انداز میں اپنے آقا و مولیٰ صلی
اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔
جنگ بدر کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ مشورہ فرمایا اور لشکر کفار کے مقابلے میں جنگ و
قتال کے متعلق ان کی رائے طلب فرمائی تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم خدا کی قسم آپ علیہ السلام ہمیں عدن تک لے جائیں گے تو انصار میں سے کوئی ایک شخص بھی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی
خلاف ورزی نہیں کر ے گا۔
(حوالہ مدارج النبوت قسم سو م باب دوم ص 83)
حضور علیہ السلام سے محبت کی بہت سی علامتیں اور آثار ہیں ، ان میں سے ایک علامت حضور علیہ
السلام کا بکثرت ذکر کرنا ہے، حدیث شریف میں ہے۔ من
اَحَبَّ شیئاً اکثر ذکرہ، جو شخص کسی سے محبت رکھتا ہے اس
کا ذکر بکثرت کرتا ہے۔
حضرت سیدنا اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ (یعنی عمر فاروق اعظم رضی اللہ
عنہ) جب دوعالم کے مالک صلی اللہ
علیہ وسلم کا ذکر کرتے تو (عشقِ رسول میں بے تاب ہو کر) رونے لگتے
اور فرماتے خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تو لوگوں میں سب سے زیادہ رحم دل اور یتیم لوگوں کے لیے والد
کی طرح، بیوہ عورت کے لیے شفیق گھر والے کی طرح اور لوگوں میں دلی طور پر سب سے
زیادہ بہادر تھے وہ تو نکھرے نکھرے چہرے والے مہکتی خوشبو والے اورحسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ مکرم تھے، اولین اور
آخرین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل کوئی نہیں۔(حوالہ، جمع الجوامع ۱۰/۱۴ حدیث
۳۰)
غزوہ خیبر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے قبیلہ بنی غفار کی ایک عورت (حمابیہ ) کو اپنے دستِ
مبارک سے ہار پہنایا تھا وہ اس کی اتنی قدر کرتی تھیں کہ عمر بھر گلے سے جدا نہ
کیا، اور جب انتقال فرمانے لگیں تو وصیت کی کہ ہار بھی ان کے ساتھ دفن کیا جائے۔(حوالہ۔
مسند احمد )
اسی طرح تابعین اور تبع تابعین رضی اللہ
عنہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم آثار کے معاملے میں انہیں کے نقش پر تھے۔
حضرت مصعب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب امام مالک رضی اللہ
عنہ کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسل کا ذکر کیا جاتاتھاتو آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ان کی پشت جھک جاتی یہاں تک کہ یہ ان کے ہمنشینوں پر گراں گزرتا ہے۔
ایک دن حاضرین نے امام مالک رضی اللہ
عنہ سے ان کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا جو
کچھ میں نے دیکھا ہے تم دیکھتے تو مجھ پر
اعتراض نہ کر تے میں نے قاریوں کے سردار محمد بن منکدر کو دیکھا کہ میں نے جب بھی
ان سے کوئی حدیث پوچھی تو وہ رو دیتے یہاں تک کہ مجھے ان کے حال پر رحم آتا تھا۔(
الشفا الباب الثالث ، ج ۲، ص ۷۳)
امام ابو یوسف (شاگرد امام اعظم رضی اللہ
عنہما) کے سامنے اس روایت کا ذکر آیا کہ حضور علیہ
السلام کدو پسند فرماتے تھے، مجلس کے ایک شخض نے کہا، لیکن مجھے
پسند نہیں۔یہ سن کر امام یوسف رضی اللہ عنہ نے تلوار کھینچ لی اور فرمایا: جدد الایمان والا لا قتلنک
تجدید ایمان کر، ورنہ تم کو قتل کیے بغیر نہ چھوڑوں گا۔
الشفا بتعریف المصطفی باب الثانی ج ۲)
جس بڑے سے محبت ہوتی ہے اس کی عظمت دل و دماغ پر چھا جاتی
ہے پھر یہ چاہنے والا اپنے محبوب کی تعظیم اور اس کی عظمت کا کلمہ پڑھنے لگتا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام حضور کی بولی بولنے اور ان کی ا داؤں کو اپناتے ہیں۔ یہ تو
صحابہ اور تابعین کی باتیں ہیں لیکن آؤ تمام جہانوں کے رب عزوجل اپنے محبوب کی شان میں کیا فرماتا۔چنانچہ قرآن مجید میں رب
فرماتا ہے: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور ہم نے
تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔( الم نشرح 4)
شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے:
میں تومالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب محب میں نہیں میرا تیرا
ورفعنا لک ذکر کا ہے سایہ تجھ پر
ذکر اونچا ہے تیر ابول ہے بالا تیرا
ورفعنالک ذکر کا ہے سایہ تجھ پر
آخر میں رب سے دعا ہے کہ رب عزوجل اپنا اور اپنے محبوب کے ذکر سے ہماری زبانوں کو تر فرمائے
امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
نوٹ:
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی
ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں