میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
انسان میں والدین ، اولاد، بھائی ، بہن، زوجہ ، خاندان، مال تجارت اور مکان وغیرہ ان تمام چیزوں سے محبت فطری چیز ہے لیکن رب تعالیٰ اپنے بندوں کو آگاہ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے اندر ان تمام چیزوں کی محبت میری اور میرے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت سے بڑھ جائے تو گویا تم خطرے کی حد میں داخل ہوچکے اور بہت جلد تمہیں میرا غضب اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ایک مؤمن کے لیے حضورنبی پاک صاحبِ لولاک
صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ صرف فرض ہے بلکہ سب سے قریبی رشتہ داروں اور سب سے قیمتی متاع پر مقدم ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔:

لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔یعنی تم میں کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والدین ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

یہی وجہ تھی کہ ہمارے اسلاف رسول کریم روفِ رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام لیتے ہوئے، آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی حدیث بیان کرتے ہوئے اور آپ کے واقعات وغیرہ ذکر کرتے ہوئے نہایت ہی ادب والا، عشق والا، محبت والا، عاجز ی و انکساری والا انداز اختیار فرماتے تھے چنانچہ۔

رسول اللہ کا ذکر کرتے تو رونے لگ جاتے:

امیر المؤمنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام حضرت سیدنا اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دو عالم کے مالک و مختار ، مکی مدنی سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر کرتے تو عشق رسول سے بے تاب ہو کر رونے لگتے اور فرماتے خاتم المرسلین رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تو لوگوں میں سب سے زیادہ رحم دل اور یتیم کے لیے والد کی طرح، بیوہ عورت کے لیے شفیق گھر والے کی طرح اور لوگوں میں دلی طور پر سب سے زیادہ بہادر تھے ، وہ تو نکھرے نکھرے ، چہرے والے، مہکتی خوشبو والے اور حسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ مکر م تھے، اولین و آخرین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل کوئی نہیں۔(فیضانِ فاروق اعظم ج،۱، ص ۳۴۲،جمع الجوامع ، ج ۱۰، ص ۱۶، حدیث ۳۳)

حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیث کا ادب :

مطرف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب لوگ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے پاس طلبِ علم کے لیے آتے تو پہلے آپ کی خادمہ آتی اور ان سے کہتی کہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ دریافت فرماتے کہ کیا تم حدیث شریف کی سماعت کرنے آئے ہو، یا مسائل فقہ دریافت کرنے؟، اگر وہ کہتے کہ مسائل دریافت کرنے آئے ہیں تو آپ رحمۃ اللہ علیہ فوراہی باہر تشریف لے آ تے اور اگر وہ کہتے کہ ہم حدیث شریف سماعت کرنے آئے ہیں تو آپ پہلے غسل خانہ جاتے، غسل کرتے، خوشبو لگاتے اور عمدہ لباس پہنتے، عمامہ باندھتے پھر اپنے سر پر چادر لپیٹتے، آپ کے لیے ایک تخت بچھایا جاتا پھر آ پ تشریف لاتے اور اس تخت پر جلوہ افروز ہوتے ، اس طرح کہ آپ پر انتہائی عجز و انکساری طاری ہوتی، اثنائے روایت کرنے میں مجلس میں عود جلایا جاتا ، یہ تخت صرف روایت حدیث کے لیے رکھا ہوا تھا جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیث کی تعظیم کروں۔

(الشفاء القسم الثانی، الخ، الباب الثالث فی تعظیم امرہ ، فضل فی سیرہ السلف، الخ ، ج ۲، ص ۵ علمیہ)

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مبارک نام کا ادب:

حضرت سیدنا سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ( بہت بڑے عاشقِ رسول بادشاہ تھے انہوں) نے ایک بار دوران گفتگو (اپنے وزیر) ایاز کے بیٹے کو ( اے ایاز کے لڑکے) کہہ کر مخاطب کیا وہ گھبرا گیا اور اپنے والد صاحب ( ایاز) کی خدمت میں عرض کی کہ معلوم ہوتا ہے کہ میری کسی خطا کے سبب بادشاہ سلامت مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں جو مجھے آج ’’ایاز کا لڑکا‘ کہا، ورنہ ہمیشہ بڑے ادب سے میرا نام لیتے رہے ہیں، ایاز نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیٹے کے اس خدشہ کا اظہار کیا تو حضرت سیدنا سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: ایاز تمہارے بیٹے کا نام احمد ہے اور یہ نام بہت ہی عظمت والا ہے لہذا میں یہ نام کبھی بھی بے وضو نہیں لیتا اتفاقاً میں اس وقت بے وضو تھا اس لیے نام لینے کے بجائے مجبورا ’ایاز کا لڑکا‘ کہہ کر مخاطب کرکے مجھے بات کر نا پڑی۔

(روح البیان، پ ۲۲، الاحزاب ، تحت الایۃ ۴۰۔۷/۱۸۵)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں