رفعتِ شان مصطفی کا کوئی مسلمان انکار کر ہی نہیں سکتا، اور
کر بھی کیسے سکتا ہے کہ قرآن ،”ورفعنا لک ذکرک“ اور حدیث قدسی” اذا
ذکرت ذکرت معی “ یعنی اے پیارے جب میرا ذکر ہوگا ساتھ تیرا ذکر بھی ہوگ،
ذکر مصطفی رفعت کا اعلان کر رہا ہے۔
وللاآخرة
خیر لک من الاولی کے ذریعے قرآن نے مہر لگادی ہے کہ یہ ذکر تا قیامت بلند
ہوتا ر ہے گا ۔ جملہ انبیا، صحابہ ،
تابعین و تبع تابعین اور اللہ والے نبی پاک
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر خیر کرتے
آئے ہیں۔
حضرت عیسی علیہ السَّلام نے کیسے ذکر مصطفی کیا ۔فرمایا اور ان رسول کی
بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔(قرآن پارہ ۲۸، سورہ صف آیت ۶)
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بوقتِ وصال بھی مصطفی کریم کی یاد کو نہ چھوڑا، اپنی پاک و صدیقہ بیٹی سے
پوچھا کہ نبی پاک کا یوم وصال کیا تھا ؟ آپ کے کفن میں کتنے کپڑے تھے؟، مقصود یہ
تھا کہ جس طرح حیات میں اپنے محبوب کی پیرو ی کرتا رہا ہوں وفات میں بھی موافقت
رہے۔
بلال حبشی کا وقتِ وصال آیا اہلیہ نے کہا(واُحزنا
ہ) ہائے غم آپ نے فرمایا نہیں بلکہ ”فاطرنا “(وائے خوشی) کہ میں کل اپنے محبوب اور ان کے صحابہ سے ملنے والا ہوں(صحابہ
کرام کا عشق رسول ۔ ۸۰)
حسان بن ثابت کیسے نبی پاک کا ذکر کرتے ہیں کہا کہ ۔
آپ سے زیادہ حسن والا میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں،
آپ سے زیادہ جمال والا کسی ماں نے جنا ہی نہیں۔
آپ تو ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں۔
گویا آپ کی مرضی کے مطابق آپ کو پیدا کیا گیا ہے۔(سیرة
النبو یۃابن ہشام )
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں