ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارك و تعالی نے بے شمار فضائل و خصائص سے نوازا ۔ ان میں ایک فضیلت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر مبارک کی بلندی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تبارك و تعالی نے پارہ 30 سورہ الم نشرح کی آیت نمبر 1 میں ارشاد فرمایا : اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱)تَرجَمۂ کنز الایمان: کیا ہم نے تمھارے لیے سینہ کشادہ نہ کیا ۔

اور جتنا ذکر بلند ہوتا ہے اسی قدر ادب و احترام لازم ہوتا ہے اسی وجہ سے صحابہ کرام علیھم الرضوان اور دیگر بزرگان دین جب بھی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر فرماتے احادیث روایت کرتے تو نہایت ادب و احترام اور عشق و محبت کے ساتھ فرماتے. جیسا کہ:

صحابی رسول اسد اللہ و اسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مولا علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی نے پوچھا:صحابہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے کس قدر محبت تھی؟

آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے اموال،اولاد، آباء و اجداد و امہات سے بھی زیادہ محبوب تھے کسی پیاسے کو شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے جو محبت ہوتی ہے ہمیں اس سے کہیں بڑھ کر اپنے آقا سے محبت تھی... (جان ہے عشق مصطفی ص 101، کتب خانہ امام احمد رضا )

حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کی کوئی محفل ایسی نہ ہوتی تھی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر نہ ہو. عہد رسالت کا کوئی واقعہ کسی سے سنتے یا خود بیان کرتے تو آنکھیں نم ہو جاتیں اور شدت تاثر سے آواز بھرا جاتی۔ (صحابہ کرام کا عشق رسول ،ص: 86، مکتبۃ المدينہ)

اسی طرح تابعین اور تبع تابعین بھی جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام لیتے یا احادیث بیان کرتے تو بڑے ادب و تعظیم کے ساتھ بیان کرتے. جیسا کہ: حضرت مصعب بن عبداللہ فرماتے ہیں کے جب امام مالک کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ان کی پشت جھک جاتی۔

(صحابہ کرام کا عشق رسول 51 مکتبة المدينه)

حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت امام مالک کے پاس تھا اور آپ حدیث کا درس دے رہے تھے. اس حال میں آپ کو سولہ مرتبہ بچھو نے ڈنک مارا۔ (شدت تکلیف) سے آپ کا رنگ متغیر ہوگیا اور چہرہ مبارک زرد پڑ گیا مگر حدیث رسول کو قطع نہ فرمایا۔ (شفاء شریف مترجم ص:341)

ہر عضو کا کوئی نہ کوئی کام ہے مثلا آنکھ کا کام دیکھنا، کان کا کام سننا،ناک کا کام سونگھنا, وغیرہ ہے ۔ دل اور سر بھی الگ الگ دو عضو ہیں ان کا کام اہل عشق و محبت کے نزدیک کیا ہے سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان سے سنیے۔

دل ہے وہ دل جو تیری یاد سے معمور رہا

سر ہے وہ سر جو تیرے قدموں پہ قربان گیا

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت نصیب فرمائے ۔آمین بجاہ طہٰ و یسین۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں