جو جس سے محبت کرتا ہے تو اس کا ذکر بھی کثرت سے کرتا ہے اور اگر وہ ذکر ایسے محبوب کا ہو جو محبوبِ ربِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے تو اس ذکر میں ادب کے راستے پر چلنا لازم ہوتا ہے۔ ہمارے بزرگان دین سچے عاشق رسول تھے اس لئے انتہائی ادب و احترام اور محبت بھرے انداز میں کثرت سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کرتے تھے۔

جیسا کہ صحابئ رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ انکی کوئی محفل ایسی نہ ہوتی تھی جس میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر خیر نہ ہو عہد رسالت کا کوئی واقعہ کسی سے سنتے یا خود بیان کرتے تو آنکھیں نم ہو جاتیں اور شدت تاثر سے آواز بھر جاتی۔

ایک دن آپ رضی اللہ عنہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حلیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے کبھی کوئی ریشم سرکار کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہیں چھوا اور نہ کبھی کوئی خوشبو سرکار کے بدنِ مبارک سے زیادہ خوشبودار سونگھی (صحابۂ کرام کا عشق رسول ص 86، مکتبۃ المدینہ)

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرماتی ہیں کہ جب بھی وہ حضور کا ذکر کرتی تھی تو یہ کہتی تھی کہ میرے باپ آپ پر قربان ہوں میں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا (کتاب جان‌ ہے عشق مصطفی، ص 139 مکتبہ: کتب خانہ امام احمد رضا، بحوالہ بخاری)

حضرت ابو ایوب سختیانی رضی اللہ عنہا کا یہ حال تھا کہ جب ان کے سامنے حضور کا ذکر کیا جاتا تو وہ اتنا روتے اتنا روتے کہ لوگوں کو ان کی حالت پر رحم آتا (کتاب جان‌ہے عشق مصطفی، ص 87، مکتبہ کتب خانہ امام احمد رضا)

اسی طرح تابعین، تبع‌ تابعین اور دیگر بزرگان‌ دین بھی جب سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ذکر خیر کرتے اور آپکی احادیث بیان کرتے تو نہایت ادب و احترام بجا لاتے!

جیسا کے امام مالک کے بارے میں آتا ہے کہ جب لوگ ان کے پاس حدیث سننے آتے تو آپ پہلے غسل خانے جاتے، غسل کرتے، خوشبو لگاتے اور عمدہ لباس پہنتے، عمامہ باندھتے، تخت بچھایا جاتا پھر آپ باہر تشریف لاتے اور اس تخت پر جلوہ افروز ہوتے اس طرح کہ آپ پر انتہائی عجز اور انکساری طاری ہوتی جب تک درس حدیث سے فارغ نہ ہوتے برابر خوشبو سلگائی جاتی رہتی۔( شفاء شریف مترجم ص 340 مکتبہ نذیر سنز پبلیشر)

امام مالک فرماتے ہیں کہ میں اسے محبوب رکھتا ہوں کہ حدیث کی خوب تعظیم کروں میں باوضو بیٹھ کر حدیث بیان کرتا ہوں اور اسے بُرا جانتا ہوں کہ راستے میں یا کھڑے کھڑے یا جلدی میں حدیث بیان کی جائے ۔( شفاء شریف مترجم ص 341 مکتبہ نذیر سنز پبلیشر)

عبد الرحمن بن قاسم جب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کرتے تو ان کے چہرے کا رنگ دیکھا جاتا کہ وہ ایسا ہو گیا کہ گویا اس سے خون نچوڑ لیا گیا ہے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہیبت اور جلال سے ان کا منہ اور زبان خشک ہوجاتی۔( شفاء شریف مترجم ص 339 مکتبہ نذیر سنز پبلیشر)

حضرت قتادہ رضی اللہ‌ عنہ کا یہ حال تھا کہ وہ بلا وضو حدیث بیان ہی نہیں کرتے تھے۔

( شفاء شریف مترجم ص 341 مکتبہ نذیر سنز پبلیشر)

اللہ تعالی تمام بزرگان دین پر اپنی رحمت و رضوان کی بارش فرمائے اور ان کے صدقے ہمیں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق بنائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں