جب کسی بڑے سے محبت ہوتی ہے تو اس کی عظمت دل و دماغ پر چھا جاتی ہے، پھر یہ چاہنے والے اپنے محبوب کی تعظیم او راس کی عظمت کا کلمہ پڑھنے لگتے ہیں ، محبوب کا ذکر ہوتے ہی ان کی کیفیت متغیر ہوجاتی اور جب محبوب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوتا تو ان کے چہروں کا رنگ متغیر ہوجایا کرتا۔

جب ہمارے اسلاف حدیث پاک بیان فرمایا کرتے تو پہلے اس کے لیے خاص غسل کرکے ضاف کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر ، تخت بچھا کر اہتمام کے ساتھ بیان فرمایا کرتے۔اور جب بیان کا وقت ہوتا تو وہ اپنے پہلو بھی نہ بدلتے تھے، یہاں تک کہ ایک بار امام مالک کو بچھونے سولہ ڈنک مارے پھر بھی انہوں نے پہلو نہ بدلا۔اور جب انہیں کوئی حدیث پاک یاد آجاتی تو اشک باری کرتے امام مالک علیہ الرحمۃ فرما تے ہیں حضرت محمد بن سکندر کو دیکھا کہ میں نے جب بھی ان سے حدیث پوچھی تو وہ رو دیتے یہاں تک کہ مجھے ان کے حال پر رحم آتا۔اور جب ان کے سامنے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ا ن کا رنگ متغیر ہوجایا کرتا۔

(صحابہ کرام کا عشقِ رسول ، ص ۵۰)

امام مالک رحمۃ اللہ علیہکے سامنے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ان کا رنگ متغیر ہوجاتا اور ان کی پشت جھک جاتی۔اور جب کسی شخص کا نام محمد ہوتا تو تو بے وضو ان کو ان کے نام سے نہ پکارے بلکہ ان کی کنیت سے ،یا، عبداللہ کہہ کر پکارا کرتے۔( ایضا ملخصاً)

ایک بار عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ وضو کرتے ہوئے مسکرانے لگے لوگوں نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ میں نے ایک مرتبہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ وضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔

(ایضاً ص 130 ، حدیث: 315)

یہ تھا ہمار اسلاف کا انداز کہ ہمیشہ ادب و محبت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرمایا کرتے، اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان اسلاف کی طرح ہمیں بھی عشقِ رسول اور ادب عطا ہوجائے۔

امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں