ماہ رمضان المبارک کی احادیث میں بہت فضائل ذکر کیئے گئے ہیں  ان میں سے چند آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں: حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا :میری امت کو رمضان میں پانچ ایسی خصلتیں عطاکی گئیں ہیں جو ان سے پہلے کسی امت کو عطا نہیں کی گئیں:(1) روزے دا ر کے منہ کی بُو اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے(2) اور ان کے افطار کرنے تک مچھلیاں ان کے لئے استغفار کرتی ہیں (3)اور اللہ پاک روزانہ اپنی جنت کو سجا تا ہے اور فرماتا ہے کہ عنقریب میرے نیک بندوں سے تکلیف اٹھا لی جائے گی اور وہ تیری طرف آئیں گے ،(4)اور اس میں سرکش شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے اور وہ رمضان میں اس کا م کے لئے ہرگز کوئی راہ نہیں پاتے جس میں وہ رمضان کے علاوہ مصروف ہوتے تھے(5) اور رمضان کی آخری رات میں ساری امت کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ عرض کیا گیا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا یہ آخری رات شب قدر ہے؟ فرمایا: نہیں، مزدور کو پوری مزدوری اسی وقت دی جاتی ہے جب وہ اپنا کام پورا کر لیتاہے۔ (مسند احمد ،3/144،حدیث: 7922)

حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان المبارک میں ایک نفل ادا کرنا فرض ادا کرنے کے برابر ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر 70فرض کے برابر ہے۔

رمضان المبارک کی خصوصیات:(1) روزہ،(2) تراویح،(3) اعتکاف،(4) شب قدر،(5) فطرہ

(1) روزہ : یہ ایک ایسی عبادت ہے کہ اس کا نعم البدل کوئی دوسری عبادت نہیں یہی وجہ ہے کہ زورہ ہر امت پر فرض کیا گیا۔ قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پہ فرض ہوئے تھے تاکہ تمہیں پرہیزگاری ملے ۔(پ 2،بقرہ:183)

(2) تراویح:رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :جو رمضان میں ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کے لیے قیام کرے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

رمضان المبارک میں عشا کے فرض اور سنت کے بعد مرد اور عورت دونوں کے لئے بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہے۔تراویح میں پورا قرآن پاک ایک مرتبہ ختم کرنا سنت ہے۔ رمضان میں ستائسویں شب پورا قرآن ختم کرنا افضل ہے مگر اس سے پہلے بھی جائز ہے۔

(3) اعتکاف:پچھلی امتوں میں بھی اعتکاف کی عبادت موجود تھی چنانچہ پارہ اول سورہ بقرہ کی آیت نمبر 125میں اللہ پاک کا فرمان عالی شان ہے: وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(۱۲۵)ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسمٰعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لیے۔(پ 1،بقرہ:125)

اعتکاف کی تعریف:لغوی معنی: ٹھہرنا، شرعی معنی:روزے دار کا نیت کے ساتھ جماعت والی مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف ہے۔ (تعریفات دراسیہ) رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ علی کفایہ ہے۔

(4) شب قدر:شب قدر کے بارے میں اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے:لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳)ترجمۂ کنزالایمان : شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ۔(پ 30،قدر :3)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک مہینہ آیا تو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :تمہارے اوپر ایک ایسا مہینہ آنے والا ہے جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا ساری خیر سے محروم رہ گیا اور اس شب کی خیر سے وہی محروم رہے گا جو پورا پورا محروم ہوگا۔

سونے والے رب کو سجدہ کر کہ سو

کیا خبر اٹھے نہ اٹھے صبح کو

(5) صدقہ فطر:صدقہ فطر مالی انفاق ہے جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے زکوٰۃ سے پہلے اس سال دیا جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا۔ صدقہ فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو فطرانہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ادا کرنا ہر مالدار شخص کے لئے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں صدقہ فطر روزے دار کو فضول اور فحش حرکات سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے صدقہ فطر کو اس لئے فرض قرار دیا ہے کہ یہ روزہ دار کے بیہودہ کاموں اور فحش باتوں کی پاکی اور مساکین کے لئے کھانے کا باعث بنتا ہے۔( فیضان رمضان ،ص174)