اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماہِ رمضان
المبارک نہایت ہی رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔اس کی فضیلت کا اندازہ سرکار صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے کہ
اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے؟ تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش! پورا سال
رمضان ہی ہو۔(ابن
خزیمہ ج 3 ص 190 حدیث 1886) اس مقدس مہینے کی بےشمار منفرد
خصوصیات میں سے 5 درج ذیل ہیں۔ 1:ماہِ صیام:روزوں کے لئے اس مہینے کا انتخاب ہوا۔ قرآنِ
پاک میں ہے:فَمَنْ
شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ ؕ(پارہ 2 البقرة
185)ترجمۂ
کنز العرفان: تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے۔اس
مبارک مہینے میں روزے رکھنے کے بہت سے فضائل ہیں،جبکہ بلا اجازتِ شرعی روزہ چھوڑ
دینا سخت گناہ و حرام ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:جس نے رمضان کے ایک دن کا روزہ بغیر
رخصت و بغیر مرض افطار کیا (یعنی نہ رکھا) تو
زمانے بھر کا روزہ بھی اس کی قضا نہیں ہوسکتا اگرچہ بعد میں رکھ بھی لے۔(ترمذی
ج 2 ص 175 حدیث 723) یعنی وہ فضیلت جو رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کی
تھی اب کسی طرح نہیں پاسکتا۔(بہار شریعت ج 1 ص 985 ملخصا)(فیضان
رمضان ص 88) 2:دعاؤں
کی قبولیت:رمضان المبارک میں افطار اور سحری کے وقت دعا قبول ہوتی ہے یعنی افطار
کرتے وقت اور سحری کھاکر۔یہ مرتبہ کسی اور مہینے کو حاصل نہیں۔(فیضان
رمضان ص 30)3:وسعتِ
رزق:حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس مہینے (رمضان
المبارک) میں
مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے، جو اس میں روزہ دار کو افطار کرائے، اُس کے گناہوں
کے لیے مغفرت ہے اور اس کی گردن آگ سے آزاد کردی جائے گی۔(شعب
الایمان، باب فی الصیام، فضائل شہر رمضان، الحدیث: 3608، ج 3، ص 305)نیز
فرمایا:ماہِ رمضان میں (گھر والوں کے) خرچ
میں کشادگی کرو کیونکہ ماہِ رمضان میں خرچ کرنا اللہ کریم کی راہ میں خرچ کرنے کی
طرح ہے۔(فضائل
شہر رمضان مع موسوعة ابن ابی الدنیا ج 1 ص 368 حدیث 24)4:ماہِ
اعتکاف:رمضان المبارک کے آخری عشرے یعنی آخر کے دس دن میں اعتکاف کیا جاتا ہے جو
کہ سنتِ مؤکدہ اور اجر و ثواب کا باعث ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے:جس نے رمضان میں دس
دنوں کا اعتکاف کرلیا تو ایساہے جیسے دو حج اور دو عمرے کیے۔(شعب
الایمان، باب فی الاعتکاف، الحدیث 3966، ج 3، ص 425)5:لیلۃ القدر:حضرت
انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عنہ سے
روایت ہے : رمضان کا مہینہ آیا توحضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک تمہارے پاس یہ
مہینہ آیا ہے اور اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،جوشخص
اس رات سے محروم رہ گیا وہ تمام نیکیوں سے محروم رہا۔(ابن
ماجہ، کتاب الصیام، باب ما جاء فی فضل شہر رمضان، 2/298، الحدیث: 1644)لہٰذا
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ یہ رات عبادت میں گزارے اور اس رات میں کثرت سے
اِستغفار کرے۔کثیر روایات سے ثابت ہے کہ شبِ قدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ
میں ہوتی ہے اور اکثر اس کی بھی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں ہوتی
ہے۔بعض علما کے نزدیک رمضان المبارک کی ستائیسویں رات شبِ قدر ہوتی ہےاور یہی
حضرتِ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے۔(مدارک،
القدر، تحت الآیۃ: 1، ص 1364)(تفسیر صراط الجنان، القدر، تحت الآیۃ: 1)