رمضان یہ رمض سے بنا، جس کے معنی ہیں: گرمی سے چلنا کیونکہ جب مہینوں کے نام قدیم عربوں کی زبان سے نقل کیے گئے تو اس وقت جس قسم کا موسم ہے اس کے مطابق مہینوں کے نام رکھ دیئے گئے۔ اتفاق سے اس وقت رمضان سخت گرمیوں میں آیا تھا اسی لیے یہ نام رکھ دیا گیا۔(النھایہ الابن الاشر 2، ص310)ماہِ رمضان کی خصوصیت کے تو کیا کہنے! خود نبیِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش! پورا سال رمضان ہی ہو۔(صحیح ابن خزیمہ کتاب الصام ، باب ذکر تر، الجنہ شہر رمضان الخ الحدیث 1886، ج 3، ص 310)2۔ ماہِ رمضان المبارک کا قرآن میں ذکر:رمضان وہ واحد مہینہ ہے کہ جس کا نام قرآنِ پاک میں آیا اسی ماہ کے فضائل بیان ہوئے ، کسی دوسرے مہینے کا نہ صراحتا نام ہے نہ ایسے فضائل ۔مہینوں میں صرف ماہِ رمضان کا نام قرآن شریف میں لیا گیا۔2: ماہِ نزولِ قرآن:قرآنِ کریم کے نزول کی ابتدا رمضان میں ہوئی،مکمل قرآنِ کریم رمضان کی شبِ قدر میں لوحِ محفوط سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا، اس ماہ میں قرآن کے نزول کے سبب سے ہی یہ ماہِ نزولِ قرآن کہلایا۔چنانچہ ارشاد باری ہے: رمضان کا مہینہ جس میں قر آن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں۔(پاہ 2، سورہ البقرہ ، آیت 185)ہر گھڑی رحمتوں اور اجر و ثواب کی بارشیں:اس ماہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی ہر گھڑی میں رحمتوں اور اجرو ثواب کی بارشیں ہوتی ہیں۔ اس میں ہر نیکی کا ثواب 70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے، نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70 گنا کردیا جاتا ہےعرش پر فرشتے ہر رات اور دن ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔(الترغیب والترہیب ج 2، ص 55، حدیث 4)نبی ِکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک ماہِ رمضان میں روزانہ افطار کے وقت دس لاکھ ایسے گناگاروں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے جن پر گناہوں کی و جہ سے جہنم واجب ہوچکا تھا، نیز شبِ جمعہ اور رروزِ جمعہ( یعنی جمعرات کو غروب آفتاب تک ) کی ہر ہر گھڑی میں ایسے دس دس لاکھ گنہگاروں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے۔جو عذاب کے حق دار قرار دیئے جاچکے ہوتے ہیں۔(الفردوس ، بما ثور الخطاب 3، ص 320، حدیث 440، ص 2)اس ماہ کی کچھ خصوصی عبادات :ماہِ رمضان میں ہر وقت عبادت ہوتی ہے، روزہ عبادت، افطار عبادت، فطار کے بعد نماز و تراویح کا انتظار عبادت، تراویح پڑھ کر سحری کے انتظار میں سونا عبادت پھر سحری کھانا بھی عبادت، البتہ یہ ایسی عبادات ہیں جو کسی اور مہینے میں نہیں کی جاتیں، رمضان کے روزے تو ایمان والوں پر فرض کیے گئے جو کسی اور مہینے میں نہیں اور غیر رمضان میں روزے رکھنے سے رمضان میں روزے رکھنا افضل ہے۔حضرت ابراہم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ماہِ رمضان میں ایک دن کا روزہ رکھنا ایک ہزار دن کے روزوں سے افضل ہے۔(تفسیر درمنثور ج 454)یوں ہی تراویح کی عبادات، کسی اور مہینے میں سنتِ موکدہ نہیں اور یوں ہی اعتکاف کرنا سنت موکدہ علی الکفایہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے ۔(مسلم ، کتاب الاعتکاف، باب اعتکاف العشاالاوخر میں رمضان الحدیث 1172، ص 597)برکتوں والی راتیں:ماہِ رمضان کی تو ہر گھڑی برکتوں والی ہے لیکن اس میں کچھ ایسی راتیں ہیں جن کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔رمضان کی پہلی رات :جب رمضان کی پہلی را ت ہوتی ہے ، اللہ پاک مخلوق کی طرف نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف نظر فرمائے گا اسے کبھی عذاب نہ کرے گا اور ہر روز دس لاکھ کو جنت سے آزاد فرماتا ہے۔(شب الایمان ، ج 3، ص 353، حدیث 3603)(جمع الجوامع ج 1، ص 345، حدیث 2536)شبِ قدر:اس مہینے میں شبِ قدر ہے۔ گزشتہ آیت ( یعنی پارہ دو سورة البقرہ آیت نمبر 185) سے معلوم ہوا! قرآن رمضان میں آیا اور دوسری جگہ فرمایا:ترجمۂ کنزالایمان : بے شک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا۔(پ 25، القدر، 1)دونوں آیتوں کو ملانے سے معلوم ہوا! شبِ قدر رمضان میں ہی ہے اور وہ غالبا ستائیسویں شب ہے۔(انوار فیضانِ رمضان ، صفحہ نمبر 9)برکتوں والی راتیں: جب انتیسویں رات ہوتی ہے تو مہینے بھر میں جتنے آزاد کیے ان کے مجموعے کے برابر اس ایک رات میں آزاد فرماتا ہے۔(جمع الجمواع ج، 1 ص 345، حدیث 2536)آخری رات :جب ماہِ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ پاک سب کی مغفرت فرمادیتا ہے ۔قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!کیا وہ لیلۃ القدر ہے؟ارشاد فرمایا:نہیں!کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارغ ہوجاتے ہیں تو انہیں اجرت دی جاتی ہے۔(شعب الایمان ج 3، ص 303، حدیث 3603)جھوم جائیے! کیا ہی برکتوں والا مہینہ ہے اسی لیے تو عاشقانِ ر مضان اس کی جدائی پر مغموم اور چشم پرنم(یعنی غمگین ہوتے اور روتے ہیں۔)اللہ پاک ہم سب کو اس ماہ کی برکتیں لوٹنا نصیب فرمائے۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم