پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! اللہ پاک نے انسانوں کی رشد و ہدایت اور فلاح و کامرانی کے لئے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور ان انبیاء کرام میں اللہ پاک نے سب سے آخر میں ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مبعوث فرما کر بابِ نبوت بند کر دیا۔ اور اللہ نے ان انبیاء کرام کی بارگاہ میں ادب و تعظیم کے ساتھ پیش آنے کا حکم ارشاد فرمایا اور ان کی بارگاہ میں بے ادبی اور گستاخی سے پیش آنے والوں کے بارے میں بہت سخت وعیدیں فرمائیں۔ آئیے ہم کچھ بارگاہِ نبوی کے آداب رقم طراز کرتے ہیں تاکہ ہم مسلمان ان آداب پر عمل کر کے فلاحِ دارین سے مالامال ہو۔

(1) آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نام لیکر پکارنا نہیں چاہیے: چنانچہ ارشاد باری ہیں: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63) مفتی قاسم صاحب تحتِ آیت رقم طراز ہے کہ : ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔

مفتی صاحب نے اس آیت کے چند معانی بیان کیے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اے لوگو! میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ تعظیم،تکریم، توقیر، نرم آواز کے ساتھ اور عاجزی و انکساری سے انہیں ا س طرح کے الفاظ کے ساتھ پکارو: یَارَسُوْلَ اللہ، یَانَبِیَّ اللہ، یَاحَبِیْبَ اللہ، یَااِمَامَ الْمُرْسَلِیْنَ، یَارَسُوْلَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، یَاخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔(تفسیر صراط الجنان ،ج6)

(2) کسی قول و فعل میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیرکسی قول و فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے۔ (تفسیر صراط الجنان جلد 9)

چنانچہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :(اس آیت کا)شانِ نزول کچھ بھی ہو مگر یہ حکم سب کو عام ہے یعنی کسی بات میں ،کسی کام میں حضور علیہ الصّلوۃُ و السّلام سے آگے ہونا منع ہے ،اگر حضور علیہ السّلام کے ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگر خادم کی حیثیت سے یا کسی ضرورت سے اجازت لے کر(چلنا منع نہیں )، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کر دینا ناجائز، اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور علیہ السّلام کی رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔( شان حبیب الرحمٰن، ص224)

(3) اپنی آوازوں کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آوازیں مبارک سے اونچی نہ کرنا۔

(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ بے کس پناہ میں چلا کر بات نہ کرنا۔ چنانچہ ارشاد باری ہیں : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو ۔ (پ26،الحجرات:2)

اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کواپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں، پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو۔ (تفسیر صراط الجنان، 9/397)

(5) بارگاہِ نبوی میں انہی الفاظ کو استعمال کرے جس میں بے ادبی کا کچھ بھی شائبہ نہ ہو ،جیسا کہ لفظِ ’’ رَاعِنَا ‘‘ کو تبدیل کرنے کا حکم دینے سے یہ بات واضح ہے ،چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ۔(پ1،البقرۃ:104)

پیارے اسلامی بھائیوں! ان آیات اور اس کے علاوہ بہت ساری آیتیں ہیں جس سے یہی ظاہر ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و تعظیم انتہائی مطلوب ہے اور ان کا ادب و تعظیم نہ کرنا اللہ پاک کی بارگاہ میں انتہائی سخت ناپسندیدہ ہے حتّٰی کہ اس پر سخت وعیدیں بھی ارشاد فرمائی ہیں ،اسی سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب وتعظیم کرنا شرک ہر گز نہیں ہے بلکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم عین ثواب ہے ،جو لوگ اسے شرک کہتے ہیں ان کا یہ کہنا مردود ہے۔ اخير میں اللہ پاک سے دعا گوں ہوں کہ اللہ ہم سب کو حضور کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم