قرآن کریم میں بارگاہِ نبوی کے 5 آداب از امِ ہلال، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
دنیا کے شہنشاہوں،بادشاہوں(Kings) کا اصول یہ
ہے کہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور اپنے دربار
کے آداب خود بناتا ہے اور جب وہ چلاجاتا ہے تو اپنی تعظیم و آداب کے نظام کو بھی
ساتھ لے جاتا ہے۔ لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے،جس کےدربار کا عالم ہی نرالا
ہے۔اُس کی تعظیم اور اُس کی بارگاہ میں ادب و احترام کے اصول و قوانین نہ اُس نے
خود بنائے ہیں اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی نے بنائے ہیں۔ بلکہ تمام بادشاہوں کے
بادشاہ اور ساری کائنات کو پیدا کرنے والے ربّ نے بنائے ہیں۔ اور بہت سے قوانین
کسی خاص وقت کے لئے نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مقرر فرمائے ہیں۔ اور وہ عظیم
شہنشاہ اس کائنات کے مالک و مختار، محمد ِ مصطفےٰﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔اللہ پاک نے
قرآنِ کریم میں آپ کی تعظیم اور ادب کے اصول و احکام بیان فرمائے ہیں۔
(1)پارہ 9،سورۂ انفال، آیت نمبر 24 میں اللہ پاک نے
فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا
اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو!
اللہ اور رسول کے بلانے پر حاضر ہو۔ جب رسول تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں
زندگی بخشے گی۔ اس آیت سے ثابت ہو اکہ تاجدارِ رسالت ﷺ جب بھی کسی
کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حا ضر ہو جائے، چاہے وہ کسی
بھی کام میں مصروف ہو۔(تفسیر صراط الجنان، ص539)
(2) پارہ نمبر26،سورۂ حجرات آیت نمبر 2 میں اللہ پاک نے
فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو!اپنی آوازیں اونچی نہ
کرو،اس غیب بتانے والے (نبی)کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو،جیسے آپس
میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں
خبر نہ ہو۔ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب
سکھایا ہے کہ جب نبیِ کریم ﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض
کرو، تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز اُن کی آواز سے بلند نہ ہو، بلکہ جو عرض کرنا
ہے آہستہ اور پست آواز سے کرو۔ (تفسیر صراط الجنان، ص396-397)
(3) پ26 سورۂ حجرات آیت نمبر 1 میں اللہ پاک نے فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان
والو!اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سنتا جانتا
ہے۔
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کی اجازت
کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے، کیونکہ یہ
آگے بڑھنارسولِ کریم ﷺکے ادب و احترام کے خلاف ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، ص 394)
(4) پارہ 18 سورۂ نورآیت نمبر 63 میں اللہ پاک نے فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا
دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ
ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اے لوگو!
میرے حبیب ﷺکا نام لے کر نہ پکارو، بلکہ تعظیم و تکریم، نرم آواز کے ساتھ” یارسول اللہ، یا حبیب اللہ “کے
الفاظ کے ساتھ پکارو۔ ایسے الفاظ کے ساتھ ندا کرنا جائز نہیں جن میں ادب و تعظیم
نہ ہو۔ (تفسیر صراط
الجنان، ص675)
(5) پارہ28،سورۂ مجادلہ، آیت نمبر 12 میں اللہ پاک نے
فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا
نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ
خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ- ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی
میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لئے
بہت بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے۔
عرض کرنے سے
پہلے صدقہ کرنا تمہارے لیے بہت بہتر ہے، کیونکہ اس میں
اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کی اطاعت ہے اور یہ تمہیں خطاؤں سے پاک کرنے والا ہے۔
پھر اگر تم اس پر قدرت نہ پاؤ تو اللہ پاک بخشنے والا مہربان ہے۔ (تفسیر
صراط الجنان)
درس:قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں بارگاہِ نبوی کے آداب
بیان ہوئے ہیں، ان سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جس طرح صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو
ظاہری حیات کے آداب سکھائے گئے تو نبیِ کریم ﷺ کے وصالِ ظاہری کے بعد بھی ہم پر ان
آداب پر عمل کرنا ضروری ہے کہ جب احادیث کا درس ہورہا ہو تو اپنی آواز کو بلند نہ
کریں، دو زانو باادب بیٹھ کر تعظیم کے ساتھ احادیث کو سنیں۔ اپنے ذہن کو دنیاوی
خیالوں سے پاک کرکے درود شریف پڑھیں،مدینے کا تصور باندھ کر پڑھیں۔کیونکہ انسان کو
جس سے محبت ہوتی ہے، اُس کا کلام اُس کو لذت و سکون دیتا ہے اور محبت اطاعت بھی
کرواتی ہے۔
خاموش! اے دل! بھری محفل میں چلانا اچھا نہیں ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔
واقعہ:حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہُ عنہ نے رسولِ کریم ﷺ کی تعظیم کی خاطر عبادات
میں سے افضل عبادت نماز وہ بھی درمیانی نمازِ عصر قربان کردی۔ اس واقعے کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مولیٰ علی نے واری تیری نیند پر نماز اور
وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل
اصول بندگی اس تاجور کی ہے
بارگاہِ نبوی کے مزید آداب
سیکھنے کے لئے دعوتِ اسلامی کے بیانات سنیں اور تفسیر صراط الجنان کا مطالعہ
فرمائیں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بارگاہِ نبوی کے آداب
بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین