قرآن مجید فرقان حمید اللہتبارک و تعالیٰ کی وہ آخری اور مکمل و جامع کتاب ہے، جسے اللہ عزوجل نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا، قرآن مجید اللہ تعالی کا ایسا کلام ہے، جو کہ رشدو ہدایت اور علم و حکمت کا اَنمول خزانہ ہے، اس کتاب مقدس نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو سیدھے راہ کی طرف راہنمائی فرمائی، قرآن کریم کو دیکھنا، چھونا، پڑھنا اور پڑھانا سب عبادت ہے، اس پر عمل دونوں جہاں میں سعادتمندی اور کامیابی کا ذریعہ ہے، مگر افسوس! آج کا مسلمان اِس فانی دنیا میں اپنی دنیوی ترقی و خوش حالی کے لئے نت نئے علوم و فنون سیکھنے اور سکھانے میں تو ہر وقت مصروفِ عمل نظر آتا ہے، جبکہ ربّ عزوجل کے نازل کردہ قرآن کریم کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں کوتاہی و غفلت کا شکار ہے۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر

اور تم خار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

دینِ اِسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے اللہ تعالی نے اپنے کلام قرآن مجید میں مختلف مقامات پر متعدد احکامات کا صدور فرمایا، جیسا کہ اِرشادِ ربّانی ہے کہ اُدْعُ اِلیٰ رَبِّكَ ، ترجمہ: اپنے ربّ کی( راہ

کی) طرف بلاؤ۔"(پارہ 20، سورۃ 28، آیت 87)

ایک اور مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اُدْعُ اِلىٰ سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ۔

ترجمہ: "اپنے ربّ کی راہ کی طرف پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے بلاؤ۔"

(پارہ 14، سورت 16، آیت 125)

قرآن مجید پڑھانے کے فضائل کے سلسلے میں اللہ عزوجل کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے کثیر فرامینِ مبارکہ موجود ہیں، جن میں سے چند یہاں پیش کئے جاتے ہیں:

الحدیث:خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ۔"یعنی تم میں سے بہترین شخص وہ ہے، جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔"(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن،3/410، حدیث 5027)

فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:"جس نے قرآن مجید سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن پاک میں ہے، اُس پر عمل کیا، قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا۔"(المؤتلف والمختلف للدار قطنی، باب الخاء 2/830)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "جس شخص نے قرآن مجید کی ایک آیت یا دین کی کوئی سُنت سکھائی، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسا ثواب تیار فرمائے گا کہ اِس سے بہتر ثواب کسی کے لیے بھی نہیں ہوگا۔( جمع الجوامع للسیوطی، ج 7، ص281 ، حدیث22404)

الٰہی خوب دیدے شوق قرآں کی تلاوت کا

شرف دے گنبدِ خضرا ءکے سائے میں شہادت کا

ذوالنورین، جامع القرآن حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے قرآن مُبین کی ایک آیت سکھائی، اس کے لیے سیکھنے والے سے دُگنا ثواب ہے۔"( جمع الجوامع، ج 7، ص282، حديث 22455)

ایک اور حدیث میں حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جس نے قرآنِ عظیم کی ایک آیت سکھائی، جب تک اس آیت کی تلاوت ہوتی رہے گی، اُس کے لیے ثواب جاری رہے گا۔"

( جمع الجوامع، ج 7، ص282، حديث 22456)

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ"جس شخص نے کتاب اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک باب سکھایا، تو اللہ عزوجل اس کے ثواب کو قِیامت تک کے لئے جاری فرما دے گا۔"

( کنزالعمال، کتاب العلم، الباب الاوّل، الحدیث 28700 ، ج 10، ص61)

عطا ہو شوق مولا مدرسے میں آنے جانے کا

خدایا! ذوق دے قرآن پڑھنے کا پڑھانے کا

جب امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حماد نے سورۃ فاتحہ ختم کی تو اِمام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے استادِ محترم کو پانچ سو دِراہم بھجوائے۔"( ایک روایت کے مطابق ہزار دراہم عطا فرمائے) اس رقم کو دیکھ کر استاد صاحب کہنے لگے:میں نے کیا ایسا کام انجام دیا ہے، جس کے بدلے آپنے کثیررقم بھیجی ہے ؟

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو بُلا بھیجا اور معذرت کی، پھر فرمایا: میرے لڑکے کو جو کچھ آپ نے سکھایا ہے، اس کو حقیر نہ جانیں، واللہ ! اگر میرے پاس اس سے زیادہ ہوتا، تو قرآن شریف کی عظمت کے پیشِ نظر وہ سب آپ کی نظر کر دیتا۔"

( الخیرات الحسان فی مناقب الامام ابی حنیفۃ النعمان، ص93)

علم نور ہے! علمِ قرآن کی تعلیم دینا ایک طریقہ سے اللہ عزوجل کی عبادت ہے، اور باطنی طریقہ سے اس کی خلافت ہے اور یہ خلافت اللہ عزوجلکی سب سے بڑی نعمت ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے عالمِ دین کے دل پر وہ صفت جو اس کی صفات میں سے خاص تر ہے، مفتوح فرمائی تو گویا عالمِ دین کا دل اللہ تعالی کے عمدہ خزینوں کا خزانچی ہوتاہے، پھر اُسے اجازت ہے کہ جس چیز کا محتاج ہے، اسے وہ چیز دے ڈالے، اب غور کیجئے کہ اس سے زیادہ کون سا رُتبہ ہوگا کہ انسان اللہ تعالی اور اس کی مخلوق میں واسطہ ہو کر ان کو اللہ تعالیٰ کی نزدیکی اور جنت کی طرف کھینچتا رہے، یہاں تک کہ انہیں منزل ِمقصود تک پہنچا دے۔

کسے خبر کے ہزاروں مقام رکھتا ہے، وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی

خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی، یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی