اللہ پاک نے ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بہت ہی خوبصورت اسمائے کرام سے نوازا ہے اور قرآنِ کریم میں جگہ جگہ آپ کو بہت ہی احسن انداز میں مخاطب فرمایا ہے۔متعدد نام رکھنے کا سبب دراصل نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بلند مرتبے اور اللہ پاک کی نظر میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عزت و احترام کو بیان کرنا ہے، کیونکہ اہلِ عرب جب کسی چیز کی اپنے دل سے تعظیم کرتے ہیں تو اس کے زیادہ نام رکھتے ہیں، اللہ پاک کے نزدیک آپ سے برگزیدہ اور عظیم ہستی کوئی نہیں۔اللہ پاک نے آپ کو عمدہ صفات سے مزین فرمایا، یہ صفات آپ کی ذات پر بکثرت استعمال کی وجہ سے آپ کا اسم اور لقب بن گئیں اور اللہ پاک نے ان اسماء کو پڑھنے اور یاد کرنے والے کیلئے جنت کی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں، آپ کے ہر نام کے ساتھ درود شریف پڑھنا چاہئے کہ درود پاک کی بڑی برکتیں ہیں اور آپ کا ذکر مبارک ہو تو درود شریف پڑھو اور دعا مانگو کہ یہ قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے، آپ کا ذکرِ مبارک کرنے والے پر سُکون اور رحمت نازل ہوتی ہے۔ایک حدیثِ مبارکہ میں ارشاد ہے:قرآن میں میرے سات نام ہیں، پھر آپ نے ان میں سے محمد،احمد،یسین، طہ،مدثر،مزمل،عبداللہ بیان فرمائے۔(اسمائے نبی کے فضائل و خصوصیات،صفحہ63)1۔محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:آپ کا اسمِ گرامی محمد قرآنی آیات اور حدیث میں وارد ہوا ہے، نیز اس نام پر امتِ محمدیہ کا اجماع ہے، قرآنِ کریم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ۔محمد اللہ کے رسول ہیں۔(سورۂ فتح، آیت 29)وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۙ۔اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے، اس پر ایمان لائے جو محمد پر اتارا گیا (سورۂ محمد:2)محمد نام کا مطلب لائقِ حمد ہے، حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا نام محمد بہت جامع ہے، جس میں حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، محمد کے معنی ہیں ہر طرح، ہر وصف میں بے حد تعریف کئے ہوئے۔ایک سروے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ رکھا جانے والا نام محمد ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس نام کے رکھنے کی بڑی برکتیں ہیں، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے میرے نام سے برکت کی امید کرتے ہوئے، میرے نام پر نام رکھا، قیامت تک صبح و شام اس پر برکت نازل ہوتی رہے گی۔(نام رکھنے کے احکام، صفحہ22)سبحان اللہ! آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نام مبارک پر نام رکھنے کی فضیلت کتنی ہے، جب نام کی برکت کا یہ عالم ہے تو صاحبِ نام کا کیا عالم ہوگا کہ نام رکھنا دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا تو آپ کے قول کو ماننا، آپ کے فعل کی پیروی کرنا، سب ہمارے لئے باعثِ رحمت اور آخرت میں باعثِ نجات ہوگا۔لیکن خبردار!ایک احتیاط بہت ضروری ہے، جو ہمارے بزرگانِ دین نے ہمیں محمد نام رکھنے کے حوالے سے بیان کی ہے کہ یہ نام اتنا مقدس ہے، جس کی ادنیٰ بے ادبی کہیں ہمارے لئے پکڑ کر سبب نہ بن جائے۔جیسا کہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اگر نام بگڑنے کا اندیشہ نہ ہو تو یہ نام رکھا جائے اور ایک صورت یہ ہے کہ عقیقہ کا نام یہ ہو اور پکارنے کے لئے کوئی دوسرا نام تجویز کر لیا جائے۔اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنے بیٹوں،بھتیجوں کاعقیقے میں صرف محمد نام رکھا، پھر نامِ اقدس کے حفظِ آداب اور باہم تمیز کے لئے عُرف جدا مقرر کئے۔(نام رکھنے کے احکام)

نامِ محمد کتنا میٹھا میٹھا میٹھا لگتا ہے

2۔احمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ۔اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوں، جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔(سورۂ الصف:آیت 6)احمد: حمد سے مشتق ہے اور یہ حمد سے اسم تفصیل ہے، آپ تمام تعریف کئے ہوؤں اور تمام تعریف کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعریف کرنے والے ہیں، روایات میں آیا ہے: آپ کا نام آسمان میں احمد ہے، اللہ پاک نے آپ کا نام آسمانوں پر احمد رکھا، اس سے آپ کی بلند شان اور مرتبہ ظاہر ہوتا ہے۔فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:روزِ قیامت دو شخص اللہ پاک کے حضور کھڑے کئے جائیں گے، حکم ہوگا:انہیں جنت میں لے جاؤ، عرض کریں گے:الہٰی! ہم کس عمل پر جنت کے قابل ہوئے؟ ہم نے تو کوئی کام جنت کا نہ کیا؟ اللہ پاک فرمائے گاجنت میں جاؤ، میں نے حلف فرمایا ہے، جس کا نام احمد یا محمد ہو، وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، حدیث 883، پوسٹ دعوت اسلامی احمد یا محمد نام رکھنے کی برکت)

کیوں بارہویں پہ ہے سبھی کو پیار آگیا آیا اسی دن احمدِ مختار آگیا

3۔یسصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰسٓ ۚ۔ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ ۙ۔ترجمہ:یسین۔حکمت بھرے قرآن کی قسم ۔ (سورۂ یاسین، آیت1)یسین حروفِ مقطعات میں سے ہے، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یسین کے ساتھ مخاطب فرمایا، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسمِ گرامی یسین اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو بلند مقام حاصل ہے اور اس نام کے ذریعے اللہ پاک کا قسم کھانا آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عظمت کی دلیل ہے۔4۔طہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:طٰهٰ ۚ۔ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤى ۙ۔ ترجمہ:طہ، ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت میں پڑو۔(سورۂ طہ)طہ حروفِ مقطعات میں سے ہے،ایک قول کے مطابق طہ اللہ پاک کا نام ہے اور اللہ پاک نے اس نام کے ذریعے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پکارا ہے، نیز اس خطاب کے ذریعے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بلند مرتبے کا اظہار کیا ہے۔یسین اور طہ نام رکھنا منع ہے:بہارِشریعت میں ہے:طہ اور یسین نام نہ رکھے جائیں کہ یہ مقطعاتِ قرآنیہ سے ہیں، جن کے معنی معلوم نہیں، یہ نام اسمائے نبی یا اسمائے الہیہ میں سے ہے، جب معنی معلوم نہیں تو ہو سکتا ہے کہ اس کے ایسے معنی ہوں، جواللہ پاک اور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ خاص ہوں۔(نام رکھنے کے احکام، صفحہ 37)محمد یسین یامحمد طہ:ان ناموں کے ساتھ محمد ملا کر کہنا بھی ممانعت کو دور نہیں کرے گا تو یوں بھی نام نہ رکھا جائے۔غلام یسین یا غلام طہ۔ا ن ناموں کے ساتھ غلام ملا کر کہنا درست ہے۔

سرور کہوں کہ مالک و مولا کہوں تجھے باغِ خلیل کا گلِ زیبا کہوں تجھے

5۔المزمل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ۔اے جھرمٹ مارنے والے۔(سورۂمزمل:1)اس تفسیر میں ہے کہ اپنے کپڑوں سے لپٹنے والے۔ اس کا شانِ نزول میں کئی اقوال ہیں،ایک قول یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم چادر شریف میں لپٹے ہوئے آرام فرما تھے، اس حالت میں آپ کو نداء کی گئی: یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ، بہرحال یہ نداء بتاتی ہے کہ محبوب کی ہر ادا پیاری ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ رداء نبوت و چادرِرسالت کے حامل و لائق تھے۔(کنزالایمان تفسیر و ترجمہ)6۔ المدثر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ۔اے بالاپوش اوڑھنے والے۔(سورۂ مدثر، آیت 1)حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں حرا پہاڑ کے اوپر تھا، مجھے آواز دی گئی: اےمحمد! بے شک آپ اللہ پاک کے رسول ہیں، میں نے دائیں بائیں دیکھا، لیکن کچھ نظر نہ آیا، پھر میں نے اوپر کی طرف دیکھا تو عرش پر ایک فرشتہ بیٹھا ہوا تھا اور مجھےپکارے جا رہا تھا، آپ فرماتے ہیں:مجھ پر رعب طاری ہو گیا اور میں حضرت خدیجہ رضی اللہُ عنہا کے پاس آیا اور ان سے کہا:مجھے کمبل اڑھاؤ(ایک قول)آپ کی حالت ایسی تھی کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مجھے کمبل میں لپیٹ دو، مجھے کمبل لپیٹ دو، اس کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، کچھ وقفہ کے بعد جب رسالت کے بارے میں پہلی آیت نازل ہوئی تو ربّ کریم نے آپ کو اےبالا پوش اوڑھنے والے کہہ کر مخاطب فرمایا۔

کہیں مزمل کہیں مدثر یا روح القرآن

میں تیرے قربان محمد

7۔بشیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:8۔نذیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ۔

اے غیب کی خبریں بتانے والے نبی!بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(الاحزاب:45)مبشر اور بشیر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے گرامی ہیں، اللہ پاک نے ان دو ناموں کے ذریعے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعریف فرمائی، ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری سناتے ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں کو وہ باتیں یاد دلاتے ہیں، جن سے ان کے دل خوش ہوتے ہیں، لوگوں کو جنت کے محلات، خوبصورتی، ان میں موجود نعمتوں کے بارے میں بتاتے ہیں، جنت میں موجود نہروں کے حال بتاتے ہیں، اور بھی ایسی خوشخبریاں سناتے ہیں کہ جس سے بندہ مؤمن خوش ہو جاتا ہے اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کتنے ہی صحابہ کرام کو دنیا میں بھی جنتی فرما دیا تھا، جن میں دس صحابہ کرام عشرہ مبشرہ کے نام سے مشہور ہیں۔اس کے علاوہ بھی آپ علمِ غیب رکھتے تھے اور آنے والے شخص کے جنتی ہونے کی خبر بھی دے دیا کرتے تھے، اسی طرح کافروں کو عذابِ جہنم کا ڈر سناتے ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں کو اللہ پاک کے عذاب اور اس کی ناراضی سے ڈراتے تھے، نذیر ڈرانے میں مبالغہ کرنے والے کو کہتے ہیں اور احادیث مبارکہ میں موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کافروں کے جہنمی ہونے اور جہنم میں ان کے ساتھ پیش آنے والے عذابات کو بیان کرکے لوگوں کو اس سے ڈرایا کرتے تھے۔9۔النور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ۔بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور اور روشن کتاب۔(سورۂ مائدہ:15)اس کی تفسیر میں ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے آنے والے نور سے مراد یا نبی کریم کی ذاتِ گرامی ہے اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نور اس لئے فرمایا گیا کیونکہ آپ سے تاریکی وکفر دور ہوئی اور راہِ حق واضح ہوئی ہے۔النور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسمِ گرامی ہے، یہ اللہ پاک کا نام بھی ہے، بے شک نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے نور ہیں۔

تم ہو خدا سے کب جدا نورِ خدا ہو باخدا

آئینہ خدا نما صلی علی محمد

اللہ پاک کا اپنا نام اپنے محبوب کو دینا نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مرتبہ و مقام کے بلند واعلیٰ ہونے کی واضح دلیل ہے۔یا نور:

اس اسم کی بہت برکت ہے، اگر کوئی شخص سات مرتبہ سورۂ نور اور 1001 یا نور پڑھے تو ان شاءاللہ اس کا دل روشن ہو جائے گا۔(مدنی پنج سورۂ)10۔خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ۔ترجمہ:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول، سب نبیوں میں پچھلے۔(سورۂ احزاب، آیت 40)خاتم النبیین کا معنی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے آخر میں آ کر نبوت کو ختم اور مکمل کرنے والے ہیں، یعنی ہمارے نبی آخری نبی ہیں، اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مبعوث فرماکر نبوت و رسالت کو مکمل فرمایا۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس اسمِ گرامی سے ہمارا عقیدہ ختم نبوت واضح ہوتا ہے اور جب ربّ نے آپ کو خاتم فرمایا توکسی بھی قسم کی گنجائش نہیں کہ ہم اس کا انکار کریں، اس عقیدہ کے بارے میں قرآن میں صریح نَص موجود ہے اور آپ کے خاتم النبیین ہونے میں شک کرنے والا بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔آپ کا یہ خوبصورت نام آج کے دور میں اُٹھنے والے خطرناک فتنے کی صراحتاً نفی کرتا ہے، ہمارا ایمان ہے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔اللہ پاک ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔آمین

فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام