اسلام ایک امن و امان اور محبت پھیلانے والا دین ہے۔ اسلام ہمیں نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں سے بھی محبت کرنے کا درس دیتا ہے۔ فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی مال اور لوگوں کی جانیں محفوظ رہیں"۔

یہ مومن کی پہچان ہے کہ وہ کسی کے آبرو میں دخل اندازی نہیں کرتا، کسی کے اموال نہیں لوٹتا، لوگوں کی زندگی کے ساتھ نہیں کھیلتا، کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ قتلِ ناحق بھی ظلم ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔ اسلام تو جانوروں کو مارنے سے بھی روکتا ہے، تو انسان کو قتلِ ناحق کا کیسے حکم دے سکتا ہے۔ ہمیں قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں بھی مذمت ملتی ہے اور احادیثِ مبارکہ میں بھی قتلِ ناحق کی مذمت ملتی ہے۔

قارئین کرام چند احادیث قتلِ ناحق کی مذمت میں درج ذیل ہیں۔

1- بڑا گناہ "حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے"۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی، ومن احیاھا، 4/ 358، الحدیث: 6871) (صراط الجنان جلد 4، سورۃ النساء، آیت 93، ص99)

2- اوندھے منہ جہنم میں ڈالا جانا : حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: "اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے"۔ (معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول۔ صراط الجنان جلد 4، سورۃ النساء، آیت 93، ص99)

3- قاتل اور مقتول دونوں جہنمی: حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: "جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا"۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31۔ صراط الجنان جلد 4، سورۃ النساء، آیت 93، ص99)

4- قاتل اللّٰہ عزوجل کی رحمت سے محروم : حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: "جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے"۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620۔ (صراط الجنان جلد 4، سورۃ النساء، آیت 93، ص99)

5- دین کی وسعت میں رہنا: حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہےکہ سرکارِ نامدار ، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : "مومن ہمیشہ اپنے دِین کی وُسعت اور کشادگی میں رہتا ہے جب تک کہ وہ ناحق قتل نہ کرے".(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ: ومن یقتل مؤمنا۔۔۔الخ، 4/ 356، حدیث:6862۔ 76 کبیرہ گناہ، ص23)

ناحق قتل کرنے تک دِین میں وُسعت:عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی فرماتے ہیں : "اِس کےدو معنی ہیں : (1) جب کوئی شخص کسی جان کو ناحق قتل کردےتو جان بوجھ کر قتل کرنےکی وعید کے سبب اُس کا دِین اُس پر تنگ ہوجاتا ہے ، قتل سے قبل اُس کا دِین اُس پر وسیع ہوتاہے۔ (2) ناحق قتل کرنےوالا شخص اپنے اس گناہ کی وجہ سے تنگی میں رہتا ہے ، ناحق قتل کرنے سےقبل وہ وُسعت میں ہوتا ہے".

دِین میں کشادگی سے مراد :عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی مذکورہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : جب تک بندہ ناحق خون نہ بہائے وہ اپنے دِین کی وُسعت میں ہوتا ہے اور اسے اپنے ربّ سے رحمت کی امید ہوتی ہے۔

قارئین کرام احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتلِ ناحق کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی کس قدر بڑی سزا ہے۔ ناحق قتل کرنے والا اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔ جب بندہ ناحق قتل ، شراب وغیرہ گناہوں میں پڑتا ہے تو شیطان اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہے اور پھر اسے ہر شر کی طرف لے جاتا ہے اور ہر بھلائی سے پھیر دیتا ہے۔

قارئین کرام آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ جس کو دل کرتا ہے قتل کردیتا ہے، کہیں سیاسی وجوہات سے، تو کہیں علاقائی اور صوبائی تَعَصُّب کی وجہ سے، یونہی کہیں زبان کے نام پر ان میں سے کوئی بھی صورت جائز نہیں ہے۔ قتل کی اجازت صرف مخصوص صورتوں میں حاکمِ اسلام کو ہے اور کسی کو نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی صحبت اچھی رکھیں، بُرے دوستوں کی صحبت سے بچے، اور لوگوں کو قتلِ ناحق کی وعید سنائے۔

اللہ تعالی ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔