اے عاشقان رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل از زمانہ ،زمانہ جاہلیت تھا چاروں طرف جہالت پھیلی ہوئی تھی پورے معاشرے میں جنگل کا قانون تھا یعنی کسی کی جان و مال و خاندان اور عزت کی حفاظت نہ تھی ۔اس معاشرے میں دو لوگوں کے درمیان ہونے والی چھوٹی سے لڑائی کا انجام بسا اوقات کئی قبیلوں میں جنگ کی صورت میں نظر آتا ہے اور بدلے اور لڑائی میں سینکڑوں لوگ ناحق قتل ہو جاتے تھے پھر آقا رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے وہی بدمعاش معاشرہ امن کا گہوارہ بن گیا اور اس نے دوسرے انسانوں کی عزت و مال و جان کی حفاظت کو اپنے اوپر لازم کر لیا

قتل ناحق کی آسان تعریف: جس شخص کو اسلام نے شرعاً کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے سے منع کیا ہو خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اس کو قتل کرنا قتل ناحق کہلاتا ہے ۔

چار یاران نبی علیہ السلام کی نسبت سے قتل ناحق احادیث کی مذمت میں 4 احادیث پاک ملاحظہ ہوں

(1) حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ ۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4/ 358، الحدیث 6871)

اس حدیث پاک سے واضح ہو جاتا ہے کہ کسی کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے لہذا ہمیں خود کو اور دوسروں کو اس کبیرہ گناہ سے بچانے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے ۔

(2) حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205، الجزء الاول)

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ دنیا میں لوگوں کو ناحق قتل کرنے والے کل بروز قیامت خسارے میں ہوں گے لہذا ہم سب پر لازم ہے کہ ہم غصے اور لڑائی جھگڑوں سے دور رہیں تاکہ اس مہلک اور خطرناک گناہ قتلِ ناحق سے بچ سکیں

(3) حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو اس حدیث پاک میں ہمارے لیے نصیحت حاصل کرنے کے بے شمار مدنی پھول ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ناحق قتل کرنے والے جہنم کےحقدار ہیں

(4)حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔ ‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذکر کردہ حدیث پاک سے ہمیں درس عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے میں مدد کرنے والوں کی دونوں آنکھوں کے درمیان قیامت میں لکھا جائے گا کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے ۔پیارے پیارے اسلامی بھائیو کتنا ہی بد بخت ہے وہ مسلمان جو اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے اور جس کی پیشانی پر لکھ دیا جائے کہ یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے اس کا کل بروز قیامت کیا حال ہو گا اللہ کی پناہ۔

میرے پیارے اور محترم اسلامی بھائیو گزشتہ ذکر کردہ احادیث پاک سے یہ بات آپ پر شیشے کی طرح صاف ہو گئی ہو گی کہ کسی کو ناحق قتل کرنا کس قدر اخلاقی اور شرعی طور پر برا کام ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔آج کل ہمارے معاشرے میں معمولی سی لڑائی ،گالی گلوچ اور فقط طعنے بازی سے چلتے چلتے بات قتل و غارت تک جا پہنچتی ہے آئیے اہتمام میں آپ کے ساتھ قتل ناحق کے ارتکاب کا شرعی حکم بھی عرض کرتا چلوں

اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا

اللہ کریم کی بارگاہ اقدس میں دعا ہے کہ حضور سیدی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں قتل و غارت سے کوسوں دور رہنے کی توفیق عنایت فرمائے اور دعوت اسلامی کے دینی ماحول اور ولی کامل مرشدی و سیدی امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی صحبت بابرکت نصیب فرمائے آمین ثم آمین بجاہ خاتم النبیین الامین صلی اللہ علیہ وسلم ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔