نماز جمعہ
کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامین مصطفے از بنت دلپذیر عطاریہ، کشمیر
جمعہ کے معنی: حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی اسی دن جمع ہوئی نیز اس دن میں لوگ جمع ہو کر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں،
ان وُجُوہ سے اِسے جمعہ کہتے ہیں۔ اسلام سے پہلے اہلِ عَرَب اسے عَرُوبه کہتے تھے۔
(مراة المناجیح ج2، ص 317 ملخصاً) ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ اللہ پاک
نے ہمیں پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کے صدقے جمعة المبارک کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ جو لوگ
علم رکھنے والے ہوتے ہیں وہ اس دن کے ایک ایک لمحے کو غنیمت جانتے ہوئے خوب خوب نیکیاں
کرتے ہیں۔ مگر افسوس! ایک تعداد ہے جو جمعہ کو بھی عام دنوں کی طرح غفلت میں گزار دیتے
ہیں حالانکہ جمعہ تو یومِ عید ہے، جمعہ سید الایام یعنی سب دنوں کا سردار ہے، جمعہ
کے روز جہنم کی آگ نہیں سلگائی جاتی، جمعہ کی رات دوزخ کے دروازے نہیں کھلتے، جمعہ
کو بروز قیامت دولہن کی طرح اٹھایا جائے گا، جمعہ کے روز مرنے والا خوش نصیب
مسلمان شہید کا رتبہ پاتا اور عذاب قبر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کے
مطابق جمعہ کو حج ہو تو اس کا ثواب ستر (70) حج کے برابر ہے، جمعہ کی ایک نیکی کا ثواب ستر (70) گُنا ہے۔ (چونکہ جمعہ کا شرف بہت زیادہ ہے لہذا) جمعہ کے روز گناہ کا عذاب بھی ستر (70) گُنا ہے۔ (ملخص از مراة ج2، ص323، 325، 336) اللہ پاک نے
تو جمعہ کے متعلق پوری سورت سورة الجمعہ نازل فرمائی جو قرآن پاک کے 28ویں پارے میں
جگمگا رہی ہے۔ سورہ جمعہ کی آیت 9 میں
ارشاد ہوتا ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان
والو! جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت
چھوڑ دو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔ (پ82، آیت9) جُمعہ فَرضِ عَین (یعنی جس کا ادا کرنا عاقِل و بالِغ مسلمان مَرد پر ضروری) ہے اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ موکدہ (یعنی تاکیدی) ہے اور
اس کا مُنکِر (یعنی انکار کرنے والا) کافِر ہے۔ (درمختار ج3، ص5، بہار شریعت ج1، ص762) افسوس!
مسلمانوں کی ایک تعداد ہے جو جمعہ کے وقت بھی کاروبار جاری رکھتی ہے۔ آج کل لوگ علم دین سے دور ہونے کی وجہ سے اس عظیم
الشان نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ ایسا نہ چاہیے بلکہ جب جمعہ کی اذان ہو جائے فوراً
سب کام کاج، کاروبار وغیرہ ترک کر دینا چاہیے اور جمعہ کی تیاری کرنی چاہیے۔ جمعہ
کی فضیلت و اہمیت بہت زیادہ ہے اس کا اندازہ ان احادیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا
ہے۔ آئیے نماز جمعہ کے متعلق 5 احادیث
مبارکہ سنتے ہیں۔
1۔ صحابی ابنِ صحابی حضرت سیدنا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الجمعة حج المساکین یعنی جمعہ کی نماز مساکین کا حج ہے۔اور دوسری روایت میں
ہے کہ الجمعة حج الفقراء یعنی جمعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے۔(جمع الجوامع ج4، ص84 حدیث 11108 تا 11109)
2۔ پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب جمعہ
کا دن آتا ہے تو مسجد کے دروازے پر فرشتے آنے والے کو لکھتے ہیں، جو پہلے آئے اس
کو پہلے لکھتے ہیں، جلدی آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ پاک کی راہ میں ایک
اونٹ صدقہ (یعنی خیرات) کرتا
ہے، اور اس کے بعد آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صدقہ کرتا ہے، اس کے بعد
آنے والا اس شخص کی مثل ہے جو مینڈھا صدقہ کرتا ہے، پھر اس کی مثل ہے جو مرغی صدقہ
کرے، پھر اس کی مثل ہے جو انڈا صدقہ کرے اور جب امام (خطبے کے لئے) بیٹھ جاتا ہے تو وہ (یعنی فرشتے) اعمال
ناموں کو لپیٹ لیتے ہیں اور آکر خطبہ سنتے ہیں۔(بخاری، ج1، ص319، حدیث929)
شرحِ حدیث: حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
بعض علما نے فرمایا کہ ملائکہ جمعہ کی طلوع فجر سے کھڑے ہوتے ہیں، بعض کے نزدیک
آفتاب چمکنے تک (یعنی سورج نکلنے) سے، مگر حق یہ ہے کہ سورج ڈھلنے (یعنی
ابتدائے وقت ظہر) سے شروع ہوتے ہیں کیونکہ اسی وقت سے وقتِ جمعہ شروع ہوتا
ہے، معلوم ہوا کہ وہ فرشتے سب آنے والوں کے نام جانتے ہیں، خیال رہے کہ اگر اولاً
سو (100) آدمی ایک ساتھ
مسجد میں آئیں تو وہ سب اول (یعنی پہلے
آنے والے) ہیں۔ (مراة ج2،
ص335)
3۔ اللہ پاک کے محبوب صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان ہے:
جو شخص تین جمعہ (کی نماز) سستی کے سبب
چھوڑے اللہ پاک اس کے دل پر مُہر کر دے گا۔(ترمذی
ج2، ص38، حدیث 500)
4۔ اللہ پاک کے آخری رسول صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان ہے:
بلاشبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہذا جمعہ کی
نماز کے لئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کے لئے انتظار
عمرہ ہے۔(السنن الکبری للبیہقی ج3، ص342، حدیث 5950)
5۔ حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عمامہ کے ساتھ ایک جمعہ بے عمامہ کے ستر جمعوں کے برابر
ہے۔ (جامع صغیر ص314، حدیث 5101 مختصراً)