عبد الرحیم
عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
ہر دور میں
اللہ تعالیٰ اجتماعی اور انفرادی طور پر مسلمانوں کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازتا
ہے، مصائب و آلام سے نجات دے کر راحت و آرام عطا کرتا ہے۔ جب مسلمان اللہ تعالیٰ کی
ناشکری کرتے، یادِ خدا سے غفلت کو
اپنا شعار بنا لیتے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اپنے برے اعمال کی کثرت کی وجہ سے خود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نا اہل ثابت
کر دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی دی ہوئی نعمتیں وآپس لے لیتا
ہے۔ عالمی سطح پر عظیم سلطنت رکھنے کے بعد مسلمانوں کا زوال، عزت کے بعد ذلت،
فتوحات کے بعد موجودہ شکست وغیرہ اس چیز کی واضح مثالیں موجود ہیں۔چنانچہ قرآن میں
بھی ناشکری کی مذمت کی گئی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :لَبِنْ
شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيد(پ،13۔س،ابراھیم۔آیت:7) ترجمه کنز العرفان: اگر
تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو
گے تو میرا عذاب سخت ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں بھی ناشکری کی مذمّت بیان کی گئی
ہے
(1)
نعمت کو بیان نہ کرنا حضرت نعمان
بن بشیر رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے۔حضورِ اقدس صَلَّى اللهُ
تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ”جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا
نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں
کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان
کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان،الثاني والستون من
شعب الايمان --- الخ، فصل في المكافأة بالصنائع، 6/ 516، الحدیث: 9119)
(2)نعمت
کا عذاب بن جانا حضرت حسن رَضِيَ
اللهُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی
قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے ، جب وہ شکر
کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں
تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا
ہے۔( رسائل ابن ابی دنیا،کتاب الشكر الله عز وجل، 1/ 484، الحدیث: 69)
(3)
نعمتوں کا احترام کیا کروابن ماجہ
نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت کی، کہ نبی کریم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم مکان میں تشریف لائے ، روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر
پونچھا پھر کھا لیا اور فرمایا: ”عائشہ ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی
روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی ۔ یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی
قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔(سنن ابن ماجه ، كتاب الأطعمة، باب
النهي عن إلقاء الطعام، الحديث:3353۔ج4۔ص49)
(4)ایک
نعمت ساری نیکیاں لے جائے گی حضرت
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ سرکار والا تبار ، ہم بے
کسوں کے مددگار ، باذن پروردگار دو عالم کے مالک و مختار عَزَّوَجَلَّ وصلى الله
تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن
نعمتیں نیکیوں اور برائیوں کے ساتھ لائی جائیں گی تو اللہ تعالیٰ اپنی ایک
نعمت سے ارشاد فرمائے گا :” اس کی نیکیوں میں سے اپنا حق لے لے تو وہ اس کے لئے کوئی
نیکی باقی نہیں چھوڑے گی۔(الفردوس بماثور الخطاب، الحديث : 8763، ج 5، ص 462)
(5)خدا
عَزَّ وَجَلَّ کا پیارا بندہ اور نا پسندیدہ بندہ:حضرت سید نا بکر بن عبد الله رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنه
مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ جس کو خیر سے نوازا جائے اور اس پر اس کا اثر دکھائی دے
تو اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا پیارا اور اس کی نعمت کا چرچا کرنے والا کہا جاتا ہے
اور جس کو خیر عطا کی جائے لیکن اس پر اس کا اثر دکھائی نہ دے تو اسے الله عَزَّ
وَ جَل کا ناپسندیدہ اور اس کی نعمتوں کا دشمن کہا جاتا ہے۔(حلية الأولياء ، الرقم
٢٤٠ سلمة بن دينار الحديث : 3925، ج 3،ص27 )
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ناشکری سے بچاتے ہووے اپنا مطیع و فرمانبردار اور شکر گزار بندہ بنائے آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہ علیہ وسلم