ابو شہیر تنویر احمد عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اَلَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا: {جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل
دیا۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے کفار کے برے احوال کا ذکر فرمایا ہے
۔(تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: 28، 7/ 94) 1)بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جن لوگوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا ان سے مراد کفارِ مکہ ہیں اور وہ نعمت جس کی انہوں نے شکر گزاری نہ کی وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب صَلَّی اللہ ُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔ (بخاری،
کتاب المغازی، باب قتل ابی جہل، 3 / 11، الحدیث: 3977)
2)آیت
کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو عالَم کے سردار، محمدمصطفٰی صَلَّی
اللہ ُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وجود سے کفارِ قریش کو نوازا اور
ان کی زیارت سرآپا کرامت کی سعادت سے مشرف کیا، ا س لئے ان پرلازم تھا کہ وہ اس
نعمت ِجلیلہ کا شکر بجا لاتے اور ان کی پیروی کرکے مزید کرم کے حق دار ہوتے لیکن
اس کی بجائے انہوں نے ناشکری کی اور نبی
اکرم صَلَّی اللہ ُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انکار کیا اور اپنی قوم کو جو دین میں ان کے موافق تھے
ہلاکت کے گھر میں پہنچا دیا۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: 28، 3 / 84)
وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَاور جو اس کے بعد ناشکری کرے۔} یعنی جو اس وعدے کے بعد نعمت کی ناشکری کرے گا تو وہی
فاسق ہیں کیونکہ انہوں نے اہم ترین نعمت کی
ناشکری کی اور اسے حقیر سمجھنے پر دلیر ہوئے۔
3)مفسرین
فرماتے ہیں کہ اس نعمت کی سب سے پہلی جو
ناشکری ہوئی وہ حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کرنا ہے۔( مدارک، النور، تحت
الآیۃ: 55، ص788)
{لَىٕنْ
شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ:
{اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔}
4)حضرت موسیٰ
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ
اگر تم اپنی نجات اور دشمن کی ہلاکت کی نعمت پر میرا شکر
ادا کرو گے اور ایمان و عملِ صالح پر ثابت قدم رہو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کروں گا اور اگر تم کفر و معصیت کے ذریعے میری نعمت
کی ناشکری کرو گے تو میں تمہیں سخت عذاب دوں گا۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: 5، 4/ 399-400)
5) حضرت نعمان
بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی
نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا
اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی
والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث:
9119)
6)حضرت
حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ
جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب
وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے
اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی
نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ،
1 / 484، الحدیث:60)
7)ابن ماجہ نے
ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مکان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑ آپڑا ہوا دیکھا، اس
کو لے کر پونچھا پھر کھالیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز
(یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی۔‘‘
(2) یعنی
اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔
شکر
کرنے کے بارے میں ترغیب ان آیتوں
سے معلوم ہوا کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اِس چیز کا عادی
بنائے۔ یہاں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ بندہ
جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم اور احسان کا
مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول
ہوتا ہے ،اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی چلی جاتی ہے یہ مقام بہت برتر ہے اور اس سے اعلیٰ
مقام یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی محبت یہاں تک غالب ہو جائے کہ دل کا نعمتوں کی
طرف میلان باقی نہ رہے، یہ مقام صدیقوں کا
ہے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: 7، 3 /
76)
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور
اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ، اٰمین۔