اللہ پاک نے انسان کو بے شمار  طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے جس کے مشاہدے کی چھوٹی سی مثال انسان کی ذات پر اللہ پاک کی عطا کی گئی نعمتیں ہیں۔ جب صرف اس کو دیکھا جائے۔ تو اللہ پاک کی اتنی عظیم نعمتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ صرف اسی پر اس کی ذات کے اعتبار سے اللہ پاک کی کتنی نعمتیں ہیں آنکھ, کان, ناک,ہاتھ, پاؤں اور دل و دماغ وغیرہ اللہ پاک کی وہ نعمتیں ہیں جن کی دنیوی اعتبار سے اگر قیمت دیکھی جاۓ تو لاکھوں کروڑوں کے برابر بھی نہیں ہے۔ مگر اللہ پاک کا کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے یہ سب نعمتیں اپنے بندوں کو بغیر کسی عوض و قیمت کے محض اپنے کرم و فضل سے عطا فرمائی ہیں۔ اور اگر ان علاوہ اللہ پاک کی انسان کو عطا کی گئی نعمتیں دیکھی جائیں تو وہ بھی شمار سے ورا ہیں۔ جب آدمی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک پل اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں ڈوبا ہوا ہے تو اُس مالک ِحقیقی کا شکر نہ بجا لانا اور اس کی یاد سے غافل رہنا کتنی بڑی ناشکری اور کس قدر محرومی کا سبب ہے؟

شکر اور ناشکری کی حقیقت:- شکر کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کواللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف منسوب کرے اور نعمت کا اظہار کرے جبکہ ناشکری یہ ہے کہ آدمی نعمت کو بھول جائے اور اسے چھپائے۔ (تفسیرِ صراط الجنان) اللہ پاک قرآن کے متعدد مقامات پر شکر بجا لانے اور نا شکری سے بچتے رہنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اللہ پاک فرماتا ہے:. لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ آسان ترجمۂ قرآن کنز العرفان:. اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔ (ابراھیم آیۃ،7) ایک اور مقام پر فرمایا :- وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠(۱۵۲) ترجمہ کنزالایمان ۔ میرا حق مانو (شکر ادا کرو) اور میر ی ناشکری نہ کرو۔(پ ۲۔ البقرہ ۱۵۲) اور فرمایا:-

اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِؕ-وَ مَنْ یَّشْكُرْ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(12) جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو بیشک الله بے پروا ہے سب خوبیوں سراہا ۔ تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے:.

{وَ مَنْ یَّشْكُرْ: اور جو شکر اداکرے۔} یعنی جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے تووہ اپنی ذات کے بھلے کیلئے ہی شکر کرتا ہے کیونکہ شکر کرنے سے نعمت زیادہ ہوتی ہے اوربندے کو ثواب ملتا ہے اور جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کی ناشکری کرے تو اس کاوبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے اور اس کے شکر سے بے پرواہ ہے اور وہ اپنی ذات و صفات اور اَفعال میں حمد کے لائق ہے اگرچہ کوئی ا س کی تعریف نہ کرے۔ اسی طرح کثیر احادیث میں بھی ناشکری کی مذمت بیان کی گئی ہے جن میں سے چند پیش خدمت ہیں:-

(1)....... حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ۶ / ۵۱۶، الحدیث: ۹۱۱۹)

(2)....... رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ یعنی اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، ۲ / ۱۲۳، الحدیث: ۱۵۲۲)

(3)...... حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، ۱ / ۴۸۴، الحدیث: ۶۰)

(4)…... حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، ۳ / ۵۵۵، رقم: ۹۳)

(5)...... حضرت حسن بصری فرماتے ہیں رحمتہ اللہ علیہ بیشک جب تک اللہ پاک چاہتا ہے اپنی نعمتوں سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہتا ہے۔ جب اس کی ناشکری کی جاتی ہے تو وہ اسی نعمت کو ان کے لیے عذاب بنا دیتا ہے (الدار المنثور, پ 2 البقرہ تحت آیۃ 152, ج,1,ص,369 )

ناشکری کا عقلی و نقلی اعتبار سے رد:- نا شکری عقل اور نقل دونوں اعتبار سے ہی مذموم ہیں

ناشکری کا نقلی اعتبار سے مذموم ہونا :- نقل کے اعتبار سے یوں کہ قرآن میں فرمایا : (وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷))ترجمہ : اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔ (پ13 ، ابراھیم : 7)

ناشکری کا عقلی اعتبار سے مذموم ہونا:- ناشکری کا عقلی اعتبار سے مذموم ہونا یوں واضح ہے کہ ہر انسان سمجھتا ہے کہ محسِن و مُنعِم کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور یہ ہر انسان کی فطرت میں ہے۔ اسی لئے اگر کوئی اپنے محسن کی ناشکری کرے تو اُسے مذموم سمجھا جاتا ہے۔ اِسی لئے دنیا میں جب کوئی کسی پر احسان کرتا ہے تو ہر مذہب و ملت اور علاقہ و قوم والا اپنی تہذیب و روایات کے مطابق مختلف الفاظ و اعمال کی صورت میں دوسرے کا شکریہ ادا کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اپنی تمام نعمتوں پر شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ، اٰمین