حافظ محمد رمضان عطّاری (درجۂ سابعہ، جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ
سرگودھا ،پاکستان)
قراٰنِ
مجید اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو
اللہ پاک نے انسانوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے لئے عطا
فرمائی ہے۔ قراٰنِ حکیم کی تلاوت کرنا ،سننا، اس کو دیکھنا ، چھونا ثواب حاصل کرنے
کا ذریعہ ہے ۔ اس کی تلاوت کرنا عقل کو بڑھاتاہے ۔ یہ ہدایت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ
ہے ۔مسلم شریف میں ہے کہ : جس نے قراٰن مجید کی پیروی کی وہ ہدایت پر ہے اور جس نے
اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہے۔ (صراط الجنان، پ4،اٰل عمرٰن ،تحت الآیۃ:103)
قراٰن مجید کے 5 حقوق درج ذیل ہیں:(1) قرآن مجید پر
ایمان لانا: اس پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو سچے دل سے ماننا اور اس کو تسلیم کرنا کہ یہ اللہ پاک ہی کا کلام ہے ۔فرمان باری ہے:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ- ترجمۂ کنزالایمان: رسول اس پر ایمان لائے جو ان
کے رب کی طرف سے ان کی طرف نازل کیا گیا اور مسلمان بھی (ایمان لائے
)۔(پارہ3،البقرۃ:285)
یعنی
اللہ تعالی کی کتابوں پر ایمان لانا اور
یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کتابیں اللہ پاک
نے اپنے رسولوں
پر نازل فرمائیں وہ سب حق سچ اور اللہ پاک
کا کلام ہیں اور یہ کہ قرآن حکیم ہر قسم
کی تبدیلی سے محفوظ ہے : (ملخصاً صراط الجنان،البقرۃ،تحت الآیۃ:285)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ
نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُؕ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے
اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل کی (ان سب پر ہمیشہ) ایمان
رکھو ۔(پ5،النسآء:136)
(2) قراٰنِ مجید کی
تلاوت کرنا: ارشاد باری ہے : اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ
الْكِتٰبِ ترجمہ کنزالعرفان: اس
کتاب کی تلاوت کر جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے۔ (پ21،العنکبوت:45) یعنی اس کی تلاوت عبادت بھی ہے اور اس میں لوگوں
کے لئے تمام قسم کے احکامات و اخلاق کی تعلیم بھی ہے ۔ (ملخص از خزائن العرفان،تحت
الآیۃ:45 ،ص743)
فرمان
آخری نبیِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
: حضرت جندب بن عبداللہ سے روایت کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تک تمہارا دل لگے
قراٰنِ کریم پڑھتے رہو پھر جب ادھر ادھر ہونے لگو تو اس سے اٹھ جاؤ۔ (مراۃ
المناجیح،ج3،ص283، حدیث:2086 مطبوعہ قادری
پبلشرز) اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: زیادہ سے زیادہ تلاوت قراٰنِ کریم کرنی
چاہئے مگر جس شخص کا کبھی بھی تلاوت میں دل نہ لگے تو وہ زبردستی تلاوت کرے ان شاءاللہ آہستہ آہستہ دل
لگنا شروع ہو جائے گا۔ ( ملخص از مراۃ المناجیح،تحت الحدیث:2086)
(3) قراٰنِ کریم کو سمجھنا: اللہ پاک
نے قراٰنِ کریم کے احکامات کو سمجھنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے : اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ
تَعْقِلُوْنَۚ(۳) ترجَمۂ
کنزُالایمان: ہم نے اسے عربی قرآن اُتارا کہ تم سمجھو ۔(پ25،الزخرف:3) اس آیت کے تحت مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :عربی زبان میں اس لئے اتارا
کہ اے عرب والوں! تم اس کے معانی و احکام کو سمجھ سکو۔ (خزائن العرفان،تحت
الآیۃ:03 ،ص899)
کیونکہ
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عرب میں تھے ۔ سب سے آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ
الْقُراٰنَ و َعَلَّمَہ یعنی تم میں بہترین شخص وہ
ہے جس نے قراٰن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا ۔ (تلاوت کی فضیلت
، ص: 4 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
(4)قراٰنِ حکیم
پر عمل کرنا (Acting
upon the Holy Quran) : علامہ احمد صادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کہ اے لوگو! قراٰن کے احکامات پر پابندی سے عمل کرو ۔ (صراط الجنان، بنی
اسرائیل ،پ 15، تحت الآیۃ: 86 – 87)
فرمانِ
آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی
جب تک کہ قراٰن جہاں سے آیا تھا وہاں لوٹ نہ جائے۔ عرش کے گِرد قراٰن کی ایسی
بھنبھناہٹ ہوگی جیسے شہد کی مکھی (Bee) کی ہوتی ہے ۔ اللہ پاک قراٰن سے فرمائے گا
کہ تیرا کیا حال ہے؟ قراٰن عرض کرے گا: اے
اللہ میں تیرے پاس سے گیا اور تیری ہی طرف لوٹ آیا ہوں۔ میری تلاوت تو کی گئی لیکن
میرے احکامات پر عمل نہ کیا گیا ۔ (صراط الجنان، پ 15، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: 86
- 87) ( مسند الفردوس ، باب لام – الف، 5/
79- حدیث:7513)ایک روایت میں ہے کہ جو قراٰن کی پیروی کرے گا وہ دنیا میں گمر اہ اور
آخرت میں بد بخت نہ ہوگا۔ (صراط الجنان ، پ 16 ،طہٰ : 123 تحت الآیۃ) پیروی سے مراد احکامِ قراٰن پر صحیح عمل کرنا ہے۔
لہذا ہمیں چاہیئے کہ قراٰن کی تعلیمات پر
عمل کریں۔
(5) قراٰن مجید کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا
:فرمان باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا
الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسول! جو کچھ آپ کی
طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا اس کی تبلیغ فرما دیں ۔ (پ6، المائدۃ:67)
یعنی
لوگوں کو نصیحت کرتے رہنا چاہیئے ۔ نصیحت کرنے میں ہی ایک مبلغ اور دوسرے لوگوں کا
فائدہ ہے۔ فرمان ِآخری نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ہے: بَلِّغُوْ اعَنِّیْ وَلَوْ اٰیَۃً ترجمہ: پہنچا
دو میری طرف سے اگر چہ ایک ہی آیت ہو۔ (شرح ریاض الصالحین ،کتاب العلم ، باب فضل
العلم، ص161،حدیث : 1385)
خلاصہ کلام: اس
کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے قراٰن کے مذکورہ حقوق کو
پورا کرنا چاہیے جو کہ ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔