خوفِ خدا کی
تعریف: خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل
گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔خوفِ خدا کا ہونا بے حد ضروری ہے، کیونکہ جب تک یہ نعمت حاصل نہ ہو، گناہوں سے فرار اور نیکیوں سے پیار ناممکن
ہے، ربّ العالمین نے خود قرآن پاک میں
متعدد مقامات پر اس صفت کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور
بیشک تاکید فرما دی ہم نے ان سے جو تم سے
پہلے کتاب دیئے گئے اور تم کو کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ ( پ 5،النساء: 131، کتاب خوف
خدا، ص 14تا15)ہم گناہ گاروں کو بخشوانے والے، اپنی امت کے غم میں آنسو بہانے والے، مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ پاک کا خوف رکھنے
والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی بندہ خوفِ خدا سے کانپتا ہے تو اس کے گناہ اس کے بدن سے ایسےجھڑ جاتے
ہیں، جیسے درخت کو ہلانے سے اس کے پتے جھڑ
جاتے ہیں۔( مکاشفۃالقلوب، صفحہ نمبر 35)رفائق الاخبار میں ہے: قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا، جب اس کے اعمال تولے جائیں گے تو برائیوں کا
پلڑا بھاری ہو جائے گا، چنانچہ اسے جہنم
میں ڈالنے کا حکم ملے گا، اس وقت اس کی
پلکوں کا ایک بال اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرے گا:اے ربّ کریم!تیرے رسول صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو اللہ پاک
کے خوف سے روتا ہے، اللہ پاک
اس پر جہنم کی آگ حرام کر دیتا ہے اور میں تیرے خوف سے رویا تھا۔اللہ پاک کا
دریائے رحمت جوش میں آئے گا اور اس شخص کو ایک اشکبار بال کے بدلے جہنم سے بچا لیا
جائے گا، اس وقت حضرت جبرائیل علیہ
السلام پکاریں گے: فلاں
بن فلاں ایک بال کے بدلے نجات پا گیا۔بدایۃ الھدایۃ میں ہے:قیامت کے دن جب جہنم کو
لایا جائے گا تو اس سے ہیبت ناک آوازیں نکلیں گی، اس کی وجہ سے لوگ اس پر سے گزرنے میں گھبرائیں گے، فرمانِ الٰہی ہے:اور تم ہر گروہ کو دیکھو
گے، زانو کے بَل گرتے ہوئے ہر گروہ اپنا نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا۔جب لوگ
جہنم کے قریب آئیں گے تو اس سے سخت گرمی اور خوفناک آوازیں سنیں گے، جو پانچ سو سال کے سفرکی دوری سے سنائی دیتی
ہیں، ہوں گی، جب ہر نبی نفسی نفسی اور حضور صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم امتی امتی کہہ رہے ہوں گے، اس وقت جہنم سے ایک نہایت ہی بلند آگ باہر نکلے گی، اور حضور علیہ السلام کی امت کی طرف بڑھے گی، آپ علیہ السلام کی امت اس کی مدافعت میں کہے گی:اے آگ! تجھے نمازیوں ، صدقہ دینے والوں، روزہ داروں اور خوفِ خدا رکھنے والوں کا واسطہ
واپس چلی جا !مگر آگ برابر بڑھتی چلی جائے
گی، تب حضرت جبرائیل علیہ
السلام یہ کہتے ہوئے کہ جہنم کی آگ امتِ محمد کی طرف بڑھ رہی
ہے، آپ کی خدمت میں پانی کا ایک پیالہ پیش
کریں گے اور عرض کریں گے:اے اللہ پاک کے نبی!اس سے آگ پر چھینٹے ماریئے۔ آپ آگ پر
پانی کے چھینٹے ماریں گے تو وہ آگ فوراً بجھ جائے گی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے اس پانی کے متعلق پوچھیں گے، جبرائیل کہیں گے:حضور!یہ خوفِ خدا سے رونے والے
آپ کے گناہ گار امتیوں کے آنسو تھے، مجھے
حکم دیا گیا تھا کہ میں یہ پانی آپ کی خدمت میں پیش کروں اور آپ اس سے جہنم کی آگ
کو بجھا دیں ۔حضور علیہ السلام دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ پاک! مجھے ایسی آنکھیں
عطا فرما، جو تیرے خوف سے رونے والی ہوں۔( مکاشفۃ القلوب، صفحہ نمبر 37،38)٭خوفِ خدا میں بہنے والے آنسو دل کی سختی کو دور کرتے ہیں۔٭خوف خدا میں بہنے
والے آنسو دل کی نرمی کا باعث ہیں ۔٭یہ آنسو قبر کے مراحل کو آسان بنا سکتے ہیں ۔٭یہ آنسو عذابِ قبر سے نجات دلاسکتے
ہیں ۔٭خوفِ خدا میں بہنے والے آنسو بظاہر بے کسی کا اظہار ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت عزتوں اور عظمتوں کو پانے کا
ذریعہ بن سکتے ہیں۔(خوف خدا میں رونے کی
اہمیت، ص 9 )اللہ پاک ہمیں بھی اپنے خوف سے رونے والی آنکھیں عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم
النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم