اللہ پاک کی عطا کردہ بے شمار نعمتیں ہیں، جن کو احاطے میں لانا ناممکن ہے، انہیں نعمتوں میں سے ایک بہت
بڑی نعمت خوف خدا میں آنسو بہانا ہے۔خوف خدا کا مطلب:اےعاشقانِ رسول!یاد رکھئے
مطلقاً خوفِ خدا سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے، جو کسی ناپسندیدہ اَمر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہو
جانے کا ڈر۔جبکہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ
پاک کی بے نیازی، اس کی
ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی
جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔(احیاء العلوم، ج4) قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں وارد ہونے والے خوف خدا پاک
کے فضائل: سورۂ
رحمن میں خوف خدا رکھنے والوں کے لئے جنت کی بشارت سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ
لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ ۚ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے
ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27 ، رحمٰن: 46)آخرت میں
کامیابی:اللہ
پاک سے ڈرنے والوں کو آخرت میں کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ
الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ ۠ ۔ ترجمۂ کنزالایمان:اور آخرت تمہارے ربّ کے پاس پرہیزگاروں کے لئے ہے۔(پ25، زخرف:35)خوف خدا میں رونے والے درج ذیل فضائل سے مستفید ہوں گے:1۔دنیا میں اپنے خالق و
مالک کا خوف رکھنے والے آخرت میں امن کی جگہ پائیں گے۔2۔اللہ پاک سے ڈرنے والوں کو
تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے ۔3۔اللہ پاک ڈر والوں کا دوست ہے۔4۔خوف خدا رکھنے والے
خوش نصیب اللہ
پاک کا پسندیدہ بندہ بننے کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں۔5۔خوفِ الٰہی اعمال کی
قبولیت کا ایک سبب ہے۔6۔اور سب سے بڑھ کر ربّ کریم کا خوف ذریعہ نجات
ہے۔سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مؤمن کا دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے
تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں، جیسے
درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔ حضرت کعب
الاخبار رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے: اللہ پاک نے سبز موتی کا ایک محل پیدا فرمایا
ہے، جس میں ستر ہزار گھر ہیں اور ہر گھر
میں ستر ہزار کمرے ہیں، اس میں وہ داخل
ہوگا، جس کے سامنے حرام پیش کیا جائے اور
وہ محض اللہ
پاک کے خوف سے اسے چھوڑ دے۔(مکاشفۃ القلوب، صفحہ 196)ایک دن حضرت داؤد علیہ
السلام لوگوں کو نصیحت
کرنے اور خوفِ خدا دلانے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کے بیان میں اس وقت
چالیس ہزار لوگ موجود تھے،جن پر آپ کے پُراثر بیان کی وجہ سے ایسی رقّت طاری ہوئی
کہ تیس ہزار لوگ خوف خدا کی تاب نہ لاس کے اور انتقال کر گئے۔خشیتِ الٰہی، سجدے اور خوفِ خدا مل جانا، آنکھوں میں آنسوؤں کا نور نصیب ہو جانا بہت بڑا
انعام ہے تو اللہ پاک یہ جس کو نصیب کر دے، یہ اُس کے لئے بہت بڑی نعمت ہے، اللہ پاک کا خوف اللہ پاک کی عطا ہے، اللہ پاک کی خشیت اللہ پاک کی طرف سے بندوں کو
دیا گیا انعام ہے، اللہ کریم جس
کی بہتری کا ارادہ فرماتا ہے اسے اپنی خشیت کا نور دے دیتا ہے، اسے اپنا خوف عطا کر دیتا ہے، اسے اپنے سے ڈرنا نصیب کر دیتا ہے، اُسے تقویٰ کی دولت سے نواز دیتا ہے۔
رونے والی آنکھیں مانگو، رونا
سب کا کام نہیں ذکرِ
محبت عام ہے لیکن، سوزِ محبت عام نہیں
اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں خشیتِ الٰہی نصیب فرمائے اور خوفِ
خدا میں رونے والی آنکھیں عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم