ارشاد باری ہے: قُلْ
اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ
عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ
كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ
بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری
عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں
ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں
لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم
لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ
وار دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں۔ جو
عشق اللہ رسول کی ذات سے ہو اسے عشق حقیقی کہتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک
کامل مومن نہ ہو گا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے
زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
محبت و عشق میں فرق: محبت
و عشق دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسےمحبّت کہا جاتا ہے اور یہی محبت اگر
شدّت اختیار کرلےتو عشق کہلاتی ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ مکاشفۃ القلوب میں
فرماتے ہیں: محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ چیز کی طرف طبیعت کے
میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر چہ یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس
میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال
و دولت یہاں تک کہ جان تک اس پر قربان کر دیتا ہے۔
اللہ پاک
ہمیں دنیا کی محبت سے نکال کر عشق حقیقی نصیب فرمائے آمین۔