نبی کریم ﷺ کی گفتگو کا انداز اس قدر دلکش تھا کہ مخاطب اس کو سنتے ہی اپنے د ل میں بسا لیا کرتا ۔آپ ﷺ کی گفتگو نہ اس قدر طویل ہوتی کہ سننے والا اُکتا جائے ،اور نہ اس قدر مختصر ہوتی کہ سننے والے کو سمجھ ہی نہ آئے۔نبی ﷺ نہایت اعتدال اور توازن کے ساتھ کلام فرماتے تھے۔چند احادیث مبارکہ بیان کی جائے گی جن میں تین چیزوں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت فرمائی  پڑھیے اور علم وعمل میں اضافہ کیجئے۔

1)تین چیزیں رد نہ کرو:سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین چیزیں رد نہیں کرنی چاہئیں: تکیہ، تیل (خوشبو) اور دودھ۔“(شمائل ترمذی حدیث نمبر 217)

2)تین طرح کی خصلتیں: کبشہ انماری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تین خصلتیں ہیں، میں ان پر قسم اٹھاتا ہوں اور میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں، تم اسے یاد کر لو، وہ چیزیں جن پر میں قسم اٹھاتا ہوں یہ ہیں: صدقہ کرنے سے بندے کا مال کم نہیں ہوتا، جس بندے کی حق تلفی کی جائے اور وہ اس پر صبر کرے تو اس کے بدلے میں اللہ اس کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے، اور بندہ جب کسی سے سوال کرتا ہے تو اللہ اسے فقر میں مبتلا کر دیتا ہے، رہی وہ بات جو میں تمہیں بتانے جا رہا ہوں اس کو خوب یاد رکھنا۔ “ پس فرمایا: ”دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک وہ بندہ جسے اللہ نے مال اور علم عطا کیا ہو اور وہ اس (علم) کے بارے میں اپنے رب سے ڈرتا ہو، صلہ رحمی کرتا ہو اور وہ اس (علم) کے مطابق اللہ کی خاطر عمل کرتا ہو، یہ سب سے افضل درجہ ہے۔ ایک وہ بندہ جسے اللہ نے علم دیا ہو لیکن اسے مال نہ دیا ہو، اور وہ نیت کا اچھا ہے، وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں (مالدار) شخص کی طرح خرچ کرتا، ان دونوں کے لیے اجر برابر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال عطا کیا لیکن علم نہیں دیا تو وہ علم کے بغیر اپنے مال کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے، اور وہ نہ تو اپنے رب سے ڈرتا ہے اور نہ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اسے حق کے مطابق خرچ کرتا ہے، یہ شخص انتہائی برے درجے پر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال دیا نہ علم، وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں شخص کی طرح عمل (یعنی خرچ) کرتا، وہ صرف نیت ہی کرتا ہے جبکہ دونوں کا گناہ برابر ہے۔( ترمذی) اور فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔(مشکاۃ المصابیح کتاب الرقاق حدیث نمبر (5287)

3)تین مساجد کا سفر کرنا:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ثواب کی نیت سے) صرف تین مسجدوں کے لیے سفر کیا جائے: ایک مسجد الحرام، دوسری میری یہ مسجد (مسجد نبوی)، اور تیسری مسجد اقصی (بیت المقدس)۔‏‏‏‏

(سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 701)

4)نجات دینے والی چیزیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جو نجات دینے والی ہیں اور تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں۔ نجات دینے والی چیزیں یہ ہیں :( ہر حال )خلوت و جلوت( میں اللہ سے ڈرناخواہ اکیلے ہوں یا لوگوں کے ساتھ، ہر حال )خوشی و غمی( میں حق اور سچ بات کہنا، ہرحال )فراخ دستی و تنگ دستی(میں میانہ روی اختیار کرنا خواہ مال و دولت زیادہ ہو یا کم ہو ۔ اسی طرح ہلاک کرنے والی چیزیں یہ ہیں : نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا ، لالچ و طمع کے پیچھے لگنا اور خود پسندی میں مبتلا ہونا ۔ یہ آخری چیز پہلی دو کے مقابلے میں زیادہ ہلاک کرنے والی ہے ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نجات دینے والی چیزوں کو بھی واضح فرما دیا اور ہلاک کرنے والی چیزوں کو بھی تاکہ پہلی چیزوں کو اپنا کر نجات حاصل کی جائے اور دوسری چیزوں سے خود کو بچایا جائے ۔(شعب الایمان للبیہقی ، فصل فی الطبع علی القلب ، الرقم: 6865)

5)میت کے پیچھے آنے والی تین چیزیں :حضرت سَیِّدُنَا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےفرمایا: ’’ میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں ، گھر والے ، مال اور اس کاعمل، پس دو چیزیں یعنی اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ایک چیز یعنی اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہتاہے۔ ( کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:2 , حدیث نمبر:104)