الحمدللہ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحتِ قلب وسینہ ہے، اللہ پاک نے اس کا نام طابہ رکھا، روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں، جس کے اسمائے گرامی یعنی مبارک نام اتنی کثرت کو پہنچے ہوں، جتنے مدینہ منورہ کے نام ہیں، مدینہ ایسا شہر ہے جس کی محبت و ہجر و فرقت کے متعلق دنیا کے اندر سب سے زیادہ زبانوں اور سب سے زیادہ تعداد میں قصیدے لکھے گئے، لکھے جارہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔ الحمدللہ

یثرب کہنا کیوں منع ہے؟

فتاویٰ رضویہ، جلد 21 صفحہ 119 پر حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اسے یثرب کہنے سے منع فرمایا، اس لئے کہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ ثَرْبٌ سے بنا ہے، جس کے معنی ہلاکت و فساد ہے یا اس وجہ سے کہ یثرب کسی بت یا کسی جابر و سرکش بندے کا نام ہے۔

فرمایا:مجھے ایک بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 317،ح1871)

یوں تو مدینہ منورہ میں بے شمار خوبیاں ہیں، مگر حصولِ برکت کے لئے دیارِ حبیب کے کچھ فضائل ملاحظہ فرما لیجئے، تاکہ دل میں مدینے کی محبت اور لگن مزید موجزن ہو۔

1۔دو جہاں کے تاجور، سلطانِ بحروبر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ روح پرور ہے:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے میں مرے کہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔( شعب الایمان، جلد 3، صفحہ497،ح1482)

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے

2۔رسولِ اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعا فرمائی: یا اللہ پاک!جتنی برکت تو نے مکہ میں رکھی ہے، اس سے دوگنی مدینے میں رکھ دے۔(بخاری،ج1،ص620،ح1885)

3۔نبی اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ِمعظم ہے:اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے، نہ کوئی راستہ، مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔( مسلم، ص714،ح1374)

امام نووی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس روایت میں مدینہ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی، کثرت سے فرشتے حفاظت کرتے تھے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عزت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔

(شرح مسلم النووی،ج5،جزء9)

ملائک لگاتے ہیں آنکھوں سے اپنی شب و روز خا کِ مزارِ مدینہ

4۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے کی تکلیف و شدّت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر کرے، قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔(بہارشریعت، ج1،حصہ6،ص535)

5۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:یااللہ پاک! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنا دے، جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے، بلکہ اس سے زیادہ، اس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے درست فرما دے اور اس کے صاع و مد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار کو منتقل کرکے جحفہ میں بھیج دے۔(بہارشریعت، ج1،حصہ6،ص536)

6۔سرکارِ والا تبار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ارشادِ خوشگوار ہے: مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری، ج1، ص619، ح1880)

7۔ حضور اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ِمعظم ہے:حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام قرار دیا اور میں مدینہ منورہ کو حرام قرار دیتا ہوں، ان دو پتھریلے کناروں کے درمیان نہ کوئی درخت کاٹا جائے گا اورنہ شکار کیا جائے گا۔(مسلم، ص566،ح3315،جزاول)

8۔ طبرانی نے معجم کبیر میں امام مسلم کی سند کے ساتھ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو یہ فرماتے سنا :اللہ پاک نے مجھے حکم دیا کہ میں مدینہ کا نام طیبہ رکھوں، ایک روایت میں طابہ ہے۔مدینہ کو طابہ اس لئے فرمایا: یہ شرک کی آلودگی سے پاک ہے اور اس میں زندگی پاکیزہ ہوتی ہے، اسی لئے اسے طیبہ اور طابہ نام دیا گیا۔

9۔نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:ایمان مدینہ طیبہ میں یوں سمٹ کر داخل ہو گا، جیسے سانپ سمٹ کر اپنی بل میں داخل ہوتا ہے۔(بخاری و مسلم)

10۔میرے مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ کا گردوغبار اپنے چہرہ انور سے صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے:خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب، صفحہ 22)

الحمدللہ!عُشاقِ مدینہ مدینے کی فرقت میں تڑپتے اور زیارت کے بے حد مشتاق رہتے ہیں، جسے ایک بار دیدار ہو جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو بخت بیدار سمجھتا ہے اور مدینے میں گزرے لمحات کو ہمیشہ کے لئے یادگار قرار دیتا ہے، ایک بار دیدار ہو جائے تو تڑپ اور بڑھ جاتی ہے، کسی صورت دُور رہ کر سکون حاصل نہیں ہوتا، جو دیدار نہ کر سکے، وہ تصاویر دیکھ کر دل بہلاتے، آنسو بہاتے ہیں کہ کاش !ہم بھی اس دَرکو جائیں، یہاں کی برکات حاصل کریں، زائرینِ مدینہ سے اپنا سلام کہلواتے اور اپنی حاضری کی دعائیں کرواتے ہیں، مدینے میں مرنے کی تمنا تو ہر عاشقِ مدینہ کے دل کو تڑپا کر رکھی ہے، ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قدموں میں جان نکلے اور وہیں جنت البقیع میں مدفن بنے۔کیا خوب شعر ہے:

مال و دولت کی دعا ہم نہ خدا کرتی ہیں ہم تو مرنے کی مدینے میں دعا کرتی ہیں

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے دلبر مدینے میں