غصہ انسانی طبیعت کا فطری جذبہ ہے۔ اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی ہوتا ہے۔ اچھا غصہ وہ ہے جو اللہ ہ ہے جو کے لیے ہو اور غیر شرعی کاموں کو دیکھ کر پیدا ہو۔ برا غصہ وہ ہے جو دنیا کی خاطر اور انتقام لینے کے لیے ہو۔ آج کل اکثر غصہ دنیا کی خاطر اور انتقام لینے کے لیے ہوتا ہے اس لیے اسی حوالے سے بات ہوگی۔ ایسے لوگ ناپسندیدہ ہیں جو غصے میں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور شرعی حدود پامال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کی بشارت دی ہے جو غصے کو پی جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَالكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ( جنت ان لوگوں کے لیے ہے ) جو غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( مَا مِنْ جُرْعَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا عِنْدَ اللَّهِ مِنْ جُرْعَةِ غَيْظٍ كَظَمَهَا عَبْدٌ ابْتِغَاءُوجه اللہ کوئی بھی گھونٹ پینے کا ثواب اتنا نہیں ہے جتنا اللہ کی رضا کے لیے غصے کا گھونٹ پینے کا ہے۔ (ابن ماجہ: كتاب الزهد: باب نمبر 18: حديث نمبر 4189)

حقیقی پہلوان کون ہے: غصے سے مغلوب ہونے کی بجائے اس پر قابورکھنا بہت اعلیٰ اور ارفع صفت ہے۔ بڑی شاباشی کی بات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے پوچھا: ( مَا تَعُدُّونَ الصُّرْعَةَ فِيكُمْ تم لوگ زبر دست پہلوان کے کہتے ہو ؟ ) انہوں نے جواب دیا: " جو لوگوں کو پچھاڑ دے اور اسے کوئی پچھاڑ نہ سکے۔“ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا: ( لا، وَلَكِنَّهُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ نہیں، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کی حالت میں اپنے پر قابورکھے ۔ ) (ابو داود: کتاب الادب باب نمبر 3: حدیث نمبر 4779)

غصہ شیطان کا ہتھیار غصے کی صورت میں شیطان انسان پر مسلط ہو جاتا ہے۔ عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اورحق و باطل میں امتیاز کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے گناہوں ( مثلا قتل و غارت، حرب و ضرب اور طلاق وشقاق وغیرہ) کا ارتکاب انسان غصے کی حالت میں کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ( إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّيْطَانِ بے شک غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔) اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قاضیوں اور جوں کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: لَا يَقْضِينَ حَكَمٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضَبَانُ کوئی قاضی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ اس وقت نہ کرے جب وہ غصے میں ہو۔ (البخاري: كتاب الادب: باب نمبر 4 حدیث نمبر 4784۔ بخاری کتاب الاحكام: باب نمبر 13 حدیث نمبر 7158)

فتح الباری میں ہے: علامہ خطابی علیہ رحمہ اللہ الہادی نے فرمایا: ” غصہ نہ کرو۔ “ کا مطلب یہ ہے کہ غصے کے اسباب اور اس کے اثرات سے بچو۔ پس یہاں نفس غصہ سے منع نہیں کیا گیا کیونکہ وہ تو طبعی و فطری شے ہے۔ بعض نے فرمایا کہ شاید سائل کا مزاج بہت تیز اور طبیعت میں غصہ زیادہ تھا اور نبی کریم صلی اللهُ تَعَالَ عَلَيْهِ وَال وَالہ ہر ایک کو اس کی طبیعت کے مطابق جواب ارشاد فرماتے تھے اس لئے اسے غصہ ترک کرنے کا حکم دیا نصیحت ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں۔ ایسی نصیحت جو جامع اور مانع ہو۔ یعنی اس پر عمل کر کے میں ہر قسم کی خیر کو پالوں اور ہر قسم کے شر سے بچ جاؤں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ارشاد فرمایا: (لا تغضب غصہ نہ کرو۔ )

وہ شخص بار بار اپنا سوال دہراتا رہا اور آپ ہر بار یہی جواب دیتے رہے۔ کے مسند احمد کی روایت میں ہے کہ جس آدمی کو آپ نے یہ نصیحت کی تھی وہ کہتا ہے کہ میں غور و فکر کرتا رہا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بار بار یہ نصیحت کیوں کی ؟ آخر میں اس نتیجے پر پہنچا: ( فَإِذَا الْغَضَبُ يَجْمَعُ الشَّرَّ كُلَّهُ غصہ تمام شرائر کو جامع ہے۔ ) اس سے پتا چلا کہ غصہ ہر قسم کے شر کو جامع اور ہر طرح کی خیر سے مانع ایک مذموم عادت ہے، لہذا اس سے بچنا لازم ہے۔ (بخاری: کتاب الادب: باب نمبر 76 حدیث نمبر 6116۔مسند احمد: احاديث رحال من اصحاب النبي : حدیث نمبر 23171)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں غصہ پر قابو پانے کی طاقت عطا فرما آمین