صحابۂ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

فضائل صحابہ میں آیات قرآ نی اور احادیث نبوی کثرت سے وارد ہوئی ہیں یہ آیات و احادیث دو قسم کی ہیں ایک وہ آیات واحادیث ہیں جو عام صحابہ کرام کے فضائل میں و ارد ہوئی اور دوسری قسم وہ جو کسی خاص صحابی کے حق میں نازل ہوئی اورہم بطوراختصار دونوں قسموں سے کچھ آیات و احادیث پیش کرتے ہیں۔

پہلی قسم سے آیات:

۱۔ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَاؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: اور پرہیزگاری کا کلمہ اُن پر لازم فرمایا اور وہ اس کے زیادہ سزاوار اور اس کے اہل تھے۔(الفتح ۔26)

اس آیت میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ میں شریک صحابہ کرام پر پرہیزگاری کا کلمہ لازم فرمادیا پرہیزگاری کا کلمہ یعنی ایمان اور اخلاص ان سے جدا نہیں ہوسکتا۔(ج۹،ص ۳۸۰)

٢۔ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا

تَرجَمۂ کنز الایمان: اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے ۔ (الفتح ، 29)

اس آیت میں بیان ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپس میں نرم دل تھے اور کثرت سے اور پابندی سے نمازیں پڑھتے تھے، اس لیے کبھی تم انہیں رکوع اور کبھی سجدہ کرتے دیکھو گے۔(صراط الجنان، ج ۹، ص 386/387)

۲۔نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرو میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ست ایا اس نے مجھے ستایا، اس اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی قریب ہے کہ اللہ اس کی پکڑ فرمائے۔(مرا ة المناجیح ج۸، ص ۳۴۰)

دوسری قسم سے آیات:

۱۔ وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اَسِیر(قیدی) کو۔(الدھر ،8)

ایک قول کے مطابق جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یتیم مسکین اور قیدی کو کھانا کھلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کی مدح میں یہ آیت نازل کی۔(تفسیر مقاتل بن سلیمان، ج۳، ص ۴۲۸)

۲۔ وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىۙ(۱) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور رات کی قسم جب چھائے ۔(اللیل ،1)

یہ سورت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں نازل ہوئی۔

احادیث:

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے احزاب کے د ن فرمایا، کہ قوم کی خبر کون لائے گا تو جناب زبیر نے عرض کیا، میں تب نبی صلی اللہ عیہ وسلم نے فرمایاکہ ہر نبی کے مخلص دوست ہوتے ہیں، اور میر ے مخلص دوست زبیر ہیں۔(مراة المناجیح ، ج۸،ص۴۲۷)

۲۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر امت کا کوئی امین ہوتا ہے اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں(مراة المناجیح، ج ۸، ص ۴۲۹)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابہ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

صحابی کی تعریف:

علماء متقدمین ومتاخرین نے صحابی کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر اس صاحب ایمان شخص کو صحابی کہا جائے گا جس نے ایمان کی حالت میں خاتم النّبیین محمد عربی صلى اللہ عليه وسلم سے شرف ملاقات حاصل کیا اور اسی ایمان کے ساتھ وفات پائی،اور ظاہر ہے کہ وہ نابینا حضرات یا صحابہ کے نومولود بچے جو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خدمت مبارکہ میں لائے گئے ان سب کو ملاقات حاصل ہے لہٰذا بلا تردد جماعت صحابہ میں ان کا شمار ہوگا۔

اس طرح کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کا پاکیزہ گروہ اس زمرہ میں شما رکیا جاتا ہے جس کے بارے میں علماء اہل سنت والجماعت اور ائمہ سلف کا بالاتفاق قول ہے کہ سب کے سب نجوم ہدایت ہیں کیونکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: اَصْحَابی کالنُّجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم. (ترمذی)

گروہ صحابہ کا وجود، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ومحبوب صلى الله عليه وسلم کے عالمگیر پیغام رسالت کو خطہٴ ارضی کے ہرگوشہ تک اس کی حقیقی روح کے ساتھ پھیلایا اور اس طرح آنحضور صلى الله عليه وسلم کا رحمة للعالمین ہونا بھی ثابت کردیا اور وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ (سورہ فاطر:۲۴) کی تفسیر بھی دنیا کے سامنے پیش کردی گئی۔

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ برگزیدہ جماعت کے ذریعہ اسلام کا تعارف بھی کرادیاگیا اور رسول عربی صلى الله عليه وسلم کی سیرتِ طیبہ اور سنت کو عام کیاگیا اگر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو الگ رکھ کر ان کوعام انسانوں کی طرح خاطی و عاصی تصور کرکے غیر معتبر قرار دیا جائے گا تو اسلام کی پوری عمارت ہی منہدم ہوجائے گی نہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی رسالت معتبر رہے گی نہ قرآن اور اس کی تفسیر اور حدیث کا اعتبار باقی رہے گا کیونکہ اللہ کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جو کچھ من جانب اللہ ہم کو عطاء کیا ہے وہ ہم تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کی معرفت پہنچا ہے خود معلم انسانیت محمد عربی نے اپنے جاں نثار اطاعت شعار صحابہ کی تربیت فرمائی تھی۔ صحابہ کرام نے اوّل، زبان رسالت سے آیات اللہ کو ادا ہوتے سنا تھااور کلام رسول کی سماعت کی تھی پھر دونوں کو دیانت وامانت کے ساتھ اسی لب ولہجہ اور مفہوم ومعانی کے ساتھ محفوظ رکھا اور بحکم رسول عربی صلى الله عليه وسلم اس کو دوسروں تک پہنچایا کیونکہ حجة الوداع کے موقع پر آنحضور صلى الله عليه وسلم نے ان کو تبلیغ کا مکلف بنایا تھا... بَلِّغُوْ عَنِّی وَلَوْ آیةً . میری جانب سے لوگوں کو پہنچادو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔(بخاری ومسلم)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو درسگاہ نبوت میں حاضری کا مکلف ایک خاص حکم کے ذریعہ بنایا تھا کہ ہر وقت ایک معتدبہ جماعت اللہ کے رسول کی خدمت میں اسلام سیکھنے کیلئے حاضر رہے اس لئے کہ کب کوئی آسمانی حکم اور شریعت کا کوئی قانون عطا کیا جائے، لہٰذا ایک جماعت کی آپ کی خدمت میں حاضری لازمی تھی اور ان کو بھی حکم تھا کہ جو حضرات خدمت رسالت میں موجود نہیں ہیں ان تک ان نئے احکام اور آیات کو پہنچائیں۔

وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةًؕ-فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠(۱۲۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان:اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہو ا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں

حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کرام سے محبت وعقیدت کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت نہیں ہوسکتی اور صحابہ کرام کی پیروی کئے بغیر آنحضور صلى الله عليه وسلم کی پیروی کا تصور محال ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام نے جس انداز میں زندگی گزاری ہے وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے اور ان کے ایمان کے کمال وجمال، عقیدہ کی پختگی، اعمال کی صحت و اچھائی اور صلاح وتقویٰ کی عمدگی کی سند خود رب العالمین نے ان کو عطا کی ہے اور معلم انسانیت صلى الله عليه وسلم نے اپنے قولِ پاک سے اپنے جاں نثاروں کی تعریف وتوصیف اور ان کی پیروی کو ہدایت وسعادت قرار دیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی انسان تھے ان سے بھی بہت سے مواقع پر بشری تقاضوں کے تحت لغزشیں ہوئی ہیں لیکن لغزشوں، خطاؤں، گناہوں کو معاف کرنے والی ذات اللہ کی ہے اس نے صحابہ کرام کی اضطراری، اجتہادی خطاؤں کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس معافی نامہ کو قرآن کریم کی آیات میں نازل فرماکر قیامت تک کیلئے ان نفوس قدسیہ پر تنقید و تبصرہ اور جرح و تعدیل کا دروازہ بند کردیا اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ایمان کی صداقت اور اپنی پسندیدگی کی سند بھی بخشی ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی فرد یا جماعت صحابہ کرام پر نقد و تبصرہ کی مرتکب ہوتی ہے تواس کو علماء حق نے نفس پرست اور گمراہ قرار دیا ہے ایسے افراد اور جماعت سے قطع تعلق ہی میں خیر اورایمان کی حفاظت ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری جماعت (خواہ کبار صحابہ ہوں یا صغار صحابہ) عدول ہے اس پر ہمارے ائمہ سلف اور علماء خلف کا یقین و ایمان ہے۔ قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق آیات پر ایک نظر ڈالئے پھر ان کے مقام ومرتبہ کی بلندیوں کا اندازہ لگائیے اس کے بعد بھی اگرکسی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کی جرأت کی ہے تواس کی بدبختی پر کفِ افسوس ملئے ۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابہ کرام کے فضائل 

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

صحابۂ کرام ملت اسلامیہ کی وہ عظیم ہستیاں ہیں جو قرآن کریم کے اولین مخاطب ہیں۔ حضور سے بلاواسطہ شرفِ تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے اور  دینِ اسلام کے اولین مبلغ ہیں۔ تمام صحابۂ کرام مومن مخلص سچے عادل اور جنتی ہیں سب کی تعظیم مسلمانوں پر لازم ہے. قرآن و حدیث میں صحابہ کرام کے بےشمار فضائل وارد ہوئے ہیں۔

1۔صحابہ کا ایمان معیار ہے:

فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ- ترجمۂ کنز العرفان: پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لے آئیں جیسا تم ایمان لائے ہو جب تو وہ ہدایت پاگئے( سورہ بقرہ، آیت 137)

یہودیوں کو صحابۂ کرام رَضِی اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی طرح ایمان لانے کا فرمایا،اس سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ایمان بارگاہِ الہٰی میں معتبر اور دوسروں کیلئے مثال ہے۔(صراط الجنان ج 1،ص 246)

2۔صحابۂ کرام تمام برائیوں سے پاک اور تقوی والے ہیں:

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز العرفان: یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(الاحزاب،3)

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو تمام برائیوں سے پاک فرمایا اور ان کے دلوں میں اپنا خوف اور تقوی ڈال دیا۔(تفسیر قرطبی، ج 16, ص 308, دار الکتب مصریۃ قاہرۃ ،طبعہ ثانیۃ)

3۔تمام صحابہ عادل اور جنتی ہیں:

رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، ترجمۂ کنزالعرفان: ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔( سورۂ توبہ، آیت: 100)

اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں۔(تفسیر صراط جنان ج 4، ص 219)

ہر صحابیٔ نبی‌ جنتی جنتی

4۔صحابہ کرام امت میں بہترین لوگ ہیں:

سرکار علیہ السلام نے ارشاد فرمایا میرے صحابہ کی عزت کرو کیوں کہ وہ تم میں بہترین لوگ ہیں ۔(مشکوۃ ج ۲ ص 413 حدیث: 6012)

5۔ صحابہ کو آگ نہیں چھوئے گی:

آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اس مسلمان کو آگ نہیں چھو سکتی جس نے مجھے دیکھا ہو۔( امیر معاویہ پر ایک نظر،ص 30)

اللہ کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو کیا کرتا ہے:

آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جب اللہ پاک کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے دل میں میرے صحابہ کی محبت پیدا فرما دیتا ہے۔ (فیضان نماز 332)

7۔صحابہ میں خیر ہے:

آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میرے تمام صحابہ میں خیر ہے (ایضا)

8۔ صحابہ کو برا کہنے کا انجام :

آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا جو میرے صحابہ کو برا کہے اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اللہ پاک اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا اور نہ نفل۔ (ایضا)

ہمیں تمام صحابہ کرام کی محبت و تعظیم عطا فرمائے اور اسے عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابہ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

فضائل : فضیلت کی جمع ہے، جس سے مراد وہ خصائل اوراوصاف ہیں جو پسندیدہ اور قابلِ مدح ہوں۔( نعمة الباری فی شرح البخاری ، ج ۶،ص ۶۹۳)

اور صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا، ہو اور ایمان پراس کی وفات ہوئی ہو۔( گلدستہ عقائد و اعمال، ص ۱۶، مکتبہ المدینہ)

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو انبیا کرام علیہم السلام کے درمیان منتخب فرمایا اسی طرح دین حنیف کے حاملین کو اور وہ صحابہ رسول تھے۔( عقائد و مسائل ص ۹۶)

شرفِ محبت و دیدار : سب سے پیاری فضیلت جو صحابہ کرام علیہم الرضوان کو تمام امت پر حاصل ہے کہ انہیں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت اور شرف دیدار نصیب ہوا ۔ کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبے کا کیوں نہ ہو کسی ادنیٰ صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچ سکتا ،اور ان (صحابہ) میں کوئی ادنی نہیں۔(سنی بہشتی زیور ص ۹۹)

امت کے بہترین افراد:

حضو ر اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے صحابہ کرام کی عزت کرو، کہ وہ تمہارے بہترین افراد ہیں، پھر وہ جوان کے ساتھ متصل ہو، پھر و ہ جو ان سے متصل ہوں گے۔(عقائد و مسائل ، ص ۹۹)

صحابہ کرام کے خرچ کرنے کے ثواب کے برابر نہ پہنچ سکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ کو گالی نہ دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم میں سے ایک شخص احد پہاڑ کی مثل سونا خرچ کردے توان کے ایک سیر اور آدھے سیر کو بھی نہیں پہنچ سکے گا۔(سنی بہشتی زیور، 98)

صحابہ کا ذکر خیر کے ساتھ ہونا فرض :

تمام صحابہ کر ام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اہل خیر و صلاح ہیں اور عادل ہیں ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے ۔

اور ان صحابہ کرام کو کیوں نہ امت پر فضیلت حاصل ہو؟ کہ یہ وہ مقدس نفوس ہیں جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مخلص وزرا، اصحاب محبت اور سچ مددگار تھے آپ کی شریعت کا دفاع کرتے تھے۔ اس لیے اللہ پاک نے انہیں یہ بلند درجہ عطا فرمایا کہ وہ اعلیٰ ترین افراد ہیں اور ان کا مقام بلند اور مرتبہ نہایت اعلیٰ ہے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابی کون ؟:

صحابی سے مراد جن و انس میں سے ہر وہ فرد ہے جس نے ایمان کی حالت میں محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کی یاصحبت سے مشرف ہوا اور اسلام کی حالتوں میں ہی اسے موت آئی(حدیقۃ ندیہ، شرح مقدمۃ الکتاب ۱/۱۳)

صحابہ کا مقام:

صحابہ کرام علیہم الرضوان انبیا کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ہستیاں ہیں، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔(مشکاة المصابیح کتاب المناقب ، ۲/۴۱۳،حدیث ۶۰۱۲)

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا، بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں۔(بخاری کتاب الشہادت2/193، حدیث: 2656)

رضائے الہی اور جنتی ہونے کی بشارت:

قرآن مجید میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کو رضائے الہی کی خوش خبری سنائی گئی ہے اور ان کا قطعی جنتی ہونا قران سے ثابت ہے اسی لیے تو امت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نعرہ ہے ۔

ہر صحابی نبی جنتی جنتی

چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالعرفان : ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لیے باغات تیار رکر رکھے ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے یہی بڑی کامیابی ہے۔ (سورہ توبہ 11/100)

آگ سے امان یافتہ :

یہ مقدس ہستیاں آگ سے محفوظ رکھی گئی ہیں یہ اس کی گن گرج نہیں سنیں گی، یہ قیامت کے دن امن میں ہوں گی چنانچہ ار شادہوا۔ترجمہ کنزالایمان :وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں وہ جہنم ک بھنک تک نہ سنیں گے وہ ہمیشہ اپنی من مانتی جی بھاتی مرادوں میں رہیں گے،قیامت کی وہ سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی فرشتے ان کا استقبال کریں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا( سورۃالانبیاء 17/102)

اسی طرح نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا، اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا (ترمذی، کتا ب المناقب، 5/461، حدیث 3884)

بیش بہا اجرو ثواب کے حقدار:

فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے، میرے صحابہ کو گالی گلوچ نہ کرو، اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے کسی صحابی کے مد بلکہ آدھا مُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔( بخاری کتا ب فضائل اصحاب النبی 2/522، حدیث ۔ 3673)

صحابہ کرام علیہم الرضوا ن کو یہ مقام و مرتبہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ملا، کوئی بڑے سےبڑ ا ولی بھی کسی صحابی کے مر تبے کو نہیں پہنچ سکتا، صحابہ کرام علیہم الرضوان سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جان نثار، غلام اور جنتی ہیں، ان سب سے بھلائی کا وعدہ ہے، قرآن پاک میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ- ترجمہ کنزالایمان : اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا۔(النساء : 95)

حقیقی مومن :

صحابہ کر ام علیہم الرضوان عادل ، متقی اور نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سچے پیرو کار ہیں تو قرآن نے انہیں نوید سنائی ۔ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ(۷۴)تَرجَمۂ کنز الایمان: اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔(الانفال : 74)

ہدایت کیسے ملے؟

ہدایت، ہدایت یافتہ کی پیروی کرنے سے ملتی ہے حبیب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کسی کی بھی اقتدا کرو گے فلاح و ہدایت پا جاؤ گے۔( مشکا ة المصابیح کتاب المناقب 2/414، حدیث 6018)

اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور

نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسولُ اللہ کی

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابۂ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

صحابی وہ خوش نصیب مومن ہیں جنہوں نے ایمان کی حالت میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جاگتی آنکھوں سے دیکھا یا انہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ہو پھر ایمان پرخاتمہ بھی نصیب ہوا ہو۔

قرآن کی روشنی میں:

اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، ہمیشہ رہیں گے ان میں۔(القرآن ، سورة مجادلہ آیت نمبر۲۲)

اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اس کی رحمت اور کرم سے یہ اللہ کی جماعت ہے، سنتا ہے اللہ ہی کی جماعت کا میاب ہے۔(القرآن ، سورہ مجادلہ آیت ۲۲)

احادیث کی روشنی میں :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بُرا نہ کہو اور گالی نہ دو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اگر اُحد پہاڑکے برابر سونا بھی خرچ کردے تو وہ ان کے ایک مد اور نہ ہی اس کے نصف تک پہنچ سکتا ہے۔(صحیح بخاری ، حدیث 3673 ، صحیح مسلم ،، حدیث 2541)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو برا بھلا کہتے ہیں تو کہو کہ تمہاری شرارت پر اللہ کی لعنت ہو۔(ترمذی، کتاب المناقب، حدیث، 3866)

راوی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ صحابۂ کرام کو برا مت کہو کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت میں گزرا ہوا ان کا ایک لمحہ تمہارے زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب المقدمہ، حدیث 162)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب سے اپنے صحابہ کے اختلاف کے متعلق سوال کیا جو میرے بعد ہوا، اللہ نے میری طرف وحی فرمائی ۔ اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمہارے صحابہ میرے نزدیک آسمان کے ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے بعض بعض پر افضل ہیں، لیکن سب کے سب نور ہیں، اے محبوب اگر ان میں بعد میں اختلاف ہوجائے تو جوان میں سے جس کی پیروی کرے وہ ہدایت پاجائے گا، پھر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو جان لو میرے صحابہ آسمان میں چمکتے ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ (مشکاة ، مناقب صحابہ، حدیث 5762)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابہ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

فضائل سے مراد وہ فضائل اور اوصاف ہیں جو پسندیدہ اور لائق مدح ہوں ۔  اور صحابی اس مسلمان کو کہتے ہیں جس نے بحالتِ بیداری میں اپنی آنکھوں سے سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا اور ایمان کی حالت میں اس کا خاتمہ ہوا۔

صحابہ کرام کے بہت سے فضائل ہیں جیسا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے فلاں و ہدایت پاجاؤ گے۔ (مشکوة المصابیح کتاب المناقب ، باب مناقب، صحابہ حدیث 6018)

صحابہ کرام تمام جہان کے مسلمانوں سے افضل ہیں روئے زمین کے سارے ولی غوث قطب ایک صحابی کے گردِ قدم کو نہیں پہنچتے، صحابہ میں خلفائے راشدین پر ترتیب ، خلافت افضل ہیں پھر عشرہ مبشرہ پھر بدر والے پھر بیعت رضوان والے پھر صاحبِ فضیلت کوئی صحابی فاسق نہیں سب عادل ہیں، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک کو پہنچے نہ آدھے کو۔(مراۃ جلد ہشتم ص،307)

یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کے لیے چنا، صحابہ کرام کا ذکرخیر سے کرنا چاہیے کسی صحابی کو ہلکے یا کم الفاظ سے یاد نہیں کرنا چاہیے۔صحابہ کرام کے فضائل کے کیا کہنے جن صحابہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت پائی حضور سے علم و عمل حاصل کیے حضور کی تربیت پائی وہ تو انسان کیا فرشتوں سے بڑھ گئے۔(مراة جلد ہشتم ، ص ۳۱۲)

اسی طرح صحابہ کرام کے فضائل میں یہاں تک آتا ہے جن لوگوں کو اخلاص سے صحابہ کرام کی صحبت نصیب ہوئی ان کی خدمات میسر ہوئی ، وہ نچلی دوزخ سے محفوظ ہے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ سے بغض مجھ سے بغض ہے ،تواس کے برعکس صحابہ سے محبت مجھ سے محبت ہے صحابہ کی شان تو بہت اونچی ہے آپ نے فرمایا میرے صحاب کی مثال میری امت میں کھانے میں نمک کی سی ہے کہ کھانا بغیر نمک کے درست نہیں ہوتا یعنی جیسے کھانے میں نمک تھوڑا ہوتا ہے مگر سارے کھانے کو درست کردیتا ہے ایسے ہی میرے صحابہ میری امت میں تھوڑے ہیں مگر سب کی اصلاح اسی کے ذریعے ہے۔(میراث جلد ہشتم ح ، ۶۰۱۶ص ۳۱۴)

صحابہ کرام کے فضائل بہت سارے ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت پائی آخر ان کے فضائل کیوں نہ ہوں گے جن کے بارے میں خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمارہے ہیں جس سرزمین میں میرے کسی صحابی کی وفات یا دفن ہوں تو قیامت کے دن اس سرزمین کے سارے مسلمان ان صحابی کے جلوؤں میں محشر کی طرف چلیں گے اور یہ صحابی ان سب کے لیے روشن شمع ہوں گے ان کی روشنی میں سارے لوگ قبروں سے محشر تک اور محشر سے جنت تک پل صراط وغیرہ سے ہوتے ہوئے پہنچیں گے۔(مراة جلد ہشتم ص ، ۳۱۵)

سبحان اللہ کیسے پیارے فضائل ہیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ہدایت کے تارے فرمایا کہیں کھانے میں نمک سے مثال دی کہیں تمام صحابہ کرام کو حق مانتے ہوئے ان کی تعظیم و توقیر کرنی چاہیے ، امت مسلمہ اپنی ایمانی زندگی میں صحابہ کرام کے حا جت مند ہیں امت کے لیے صحابہ کرام کی ا قتدا ہدایت ہے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابۂ کرام کی تعریف کر تے ہوئے مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان علیہم الرحمۃ الحنان فرماتے ہیں: شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ہوش و ایمان کی حالت میں حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھے یا صحبت میں حاضر ہو اور ایمان پراس کا خاتمہ ہو جاوے۔(مراة المناجیع ج ۸، ص ۳۳۴)

صحابہ وہ صحابہ جن کی ہر صبح عید ہوتی تھی

خدا کا قرب حاصل تھا نبی کی دید ہوتی تھیْ

ان نفوس قدسیہ کی فضیلت میں قرآن پاک میں جا بجا آیات مبارکہ وارد ہوئی ہیں جن میں ان کے حسن عمل ، حسن اخلاق اور حسن ایمان کا تذکرہ ہے، دنیا میں ہی مغفرت اور انعامات اخروی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔فرمانِ خدائے ذوالجلال ہے: اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) تَرجَمۂ کنز الایمان:یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی (الانفال ، 4)

ارشاد ربانی ہے: رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، تَرجَمۂ کنز الایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔(التوبہ : 100)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ نے میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نبیوں اور رسولوں علیہم الصلوة والسلام کے علاوہ تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی۔(مجمع الزوائد کتاب المناقب باب ماجا فی اصحابہ رسولُ اللہ 9/736 ، حدیث 16383 )

نمایاں ہیں اسلام کے گلستان میں

ہر اک گل پہ رنگ بہا ر صحابہ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی فضلت بیان کرتے ہوئے فرمایا جو شخص راہِ راست پر چلنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ ان لوگوں کے راستے پر چلے اور ان کی پیروی کرے جو اس جہاں سے گزر گئے، یہ لوگ رسول کریم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ حضرات امت میں سب سے زیادہ افضل ہیں ان کے دل نیکوکار ان کا علم سب سے زیادہ گہرا ، ان کے اعمال تکلف سے خالی جنہیں اللہ نے اپنے نبی کی رفاقت، صحبت،اور خدمت دین کے لیے چنا ان کا فضل پہنچانو ان کے آثار کی پیروی کرو ، ان کے اخلاق اور سیرت اختیار کرو، یہ لوگ درست راہ پر قائم تھے۔

خلافت امامت ولایت کرامت

ہر اک فضل پر اقتدار صحابہ

یاد رہے کہ اہل سنت و جماعت کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکہ و رسل و انبیا علیہم السلام کے بعد خلفا اربعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم تمام مخلوق سے افضل ہیں خلفائے راشدین کے بعد بقیہ عشرہ مبشرہ ، حضرات حسنین و اصحاب بدر و اصحاب بیعۃ الرضوان کے لیے افضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں ۔

ہر صحابی نبی جنتی جنتی

سب صحابہ سے ہمیں تو پیار ہے

ان شا اللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابہ ٔ کرام کےفضائل

Mon, 31 Aug , 2020
3 years ago

وہ حضرات جنہوں نے جاگتی آنکھوں سے ایما ن کی حالت میں ہمارے آقا ومولی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور حالتِ ایمان میں ہی دنیا سے رخصت ہوئے وہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کہلاتے ہیں جن کے فضائل قرآ ن بیان کرتا ہے جن کی فضیلتیں کتب احادیث میں موجود ہیں، انہی ہستیوں کو اللہ پاک نے اپنی رضا اور جنت کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا: رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، تَرجَمۂ کنز الایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔(التوبہ : 100)

انہی کی یہ شان ہے کہ حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا، میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ (مشکاة المصابیح ، کتاب المناقب)

ان آسمانِ ہدایت کے ستاروں کے صدقے کی بھی کیا فضیلت ہے حضور علیہ الصلوة والسلام فرماتے ہیں، میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابرسونا خیرات کرے تو ان کے ایک ’’مد‘‘ ( ایک پیمانہ ہے) تو کیا آدھے کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔(بخاری ، کتاب فضائل اصحاب، النبی صلی اللہ علیہ وسلم)

قرآن میں جگہ بہ جگہ مبارک ہستیوں کا ذکر ہے کہیں مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آنے والے اصحاب کے بارے میں خدائے رحمن نے فرمایا:اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے اور اللہ و رسول کی مدد کرتے وہی سچے ہیں ۔ (الحشر، 08)

کہیں ان مہاجر اصحاب کی مدد کرنے والے انصار اصحاب کے متعلق حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا اگر انصار کسی وادی یا گھاٹی میں جائیں تو میں بھی اس میں جاؤں گا، اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا۔(صحیح بخاری باب مناقب الانصار حدیث 3779)

اسلام کا پہلا معرکہ ( جنگ ) غزوہ بدر ہے اس میں شریک صحابہ کرام علیہم الرضوان کی بھی کیا شان ہے کہ حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا بے شک اللہ اہل بدر سے واقف ہے کیونکہ اس نے فرمایا تم جو چاہو عمل کرو تمہارے لیے جنت ثابت ہوچکی یا تحقیق میں نے تمہیں بخش دیا۔(صحیح بخاری کتاب المغازی)

علم دین کی خاطر اپنی جانوں کو وقف کرنے والے اصحابِ صفہ کی تعریف رب تعالیٰ نے یوں کی : وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ (۲۸) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے(الکہف:28)

اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں، امت کا کوئی ولی کیسے ہی بلند مرتبہ کو پہنچے خواہ غوث، قطب یا ابدال ہو ہرگز ، ہرگز صحابہ کرام میں سے ادنیٰ کے رتبہ کو نہیں پہنچتا اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں۔(دس عقیدے ص 87(

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابہ ٔ کرام کے فضائل

Mon, 31 Aug , 2020
3 years ago

حضرت عیسی علیہ السَّلام کی بعثت کے بعد ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد انسانیت کفر و شرک کے اندھیرے میں ڈوب چکی تھی، پوری دنیا میں سوائے چند اہل کتاب کے لوگ شرک کی غلاظت میں ڈوبے ہوئے تھے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کائنات پر کرم فرمایا اور اس کائنات پر رحم کرنا چاہا تو اپنے آخری نبی و رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اللہ تبارک و تعالی کا یہ قانون ہے کہ جب وہ اپنے فیصلے نافذ فرمانا چاہتا ہے اور اپنے احکامات کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے تو اس کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کا انتخاب فرماتا ہے۔

جب سے یہ کائنات بنی تھی اس وقت سے لے کر آقا علیہ ا لصلوة والسلام کی بعثت تک ، اللہ عزوجل نے سلسلہ نبوت اپنے سب سے افضل نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر ختم فرمادیا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ دعوت پھیلانے کے لیے ساتھیوں کی ضرورت تھی جو آپ کی اس دعوت کو لے کر دنیا کے اندر پھیلاتے ، دنیا سے بے نیاز اور مخلص ہو کر آپ کے پیغام کو دنیا تک پہنچاتے، اس مقصد کے لیے آقا علیہ الصلوة والسلام نے مکہ مکرمہ میں 13 سال سخت محنت کی جس کے نتیجہ میں حضور علیہ الصلوة والسلام کے یہ ساتھی جن کو آپ علیہ ا لسلام نے اپنی زبان اطہر سے فرمایا کہ میر ے صحابہ آسمانِ ہدایت کے ستارے ہیں، جلوہ فگن ہوئے۔

صحابی کی تعریف :وہ لوگ جنہوں نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان پر ملاقات فرمائی اور ایمان پر ہی ان کی وفات ہوگئی ہو اگرچہ درمیان میں ارتداد ہوگیا۔پھربعد میں توبہ کرلی ہو ،جو نصوص قرآن پاک میں وارد ہوئی ہیں سب ان کے لیے ہیں۔

حضور علیہ الصلوة والسلام کے صحابہ وہ پاکیزہ نفوس ہیں کے جن کے ذریعے اسلام ہم تک پہنچا، قرآن و حدیث کو ہم تک جو پہنچایا گیا تو یہ انہی کے احسان عظیم میں سے ہے، جو قرآن و حدیث کو سمجھتے ہیں، سیکھتے ہیں، استدلال کرتے ہیں، استنباط کر تے ہیں پھر وہ بات عوام الناس تک پہنچاتے ہیں، تو یہ سب صحابہ کرام کی برکتیں ہیں، جنہوں نے حدیث و قرآن کو سمجھا اور پھر محفوظ کیا، اور پھر اسی طر ح ہم تک پہنچایا، جس طرح سے انہوں نے سنا تھا یہ دینی اور علمی اعتبار سے ان کا ہم پر احسان ہے۔

جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کےزمانے میں قرآن پاک پر کام ہوا، اس کو جمع کرنے اور ہم تک پہنچانے میں صحابہ کا بڑا ہاتھ ہے، کیونکہ آقا علیہ الصلوة والسلام کے افعال کو دیکھنا ، ان کے اقوال کو سننا اور یاد رکھنا پھر مسلمانوں تک پہنچانا یہ صحابہ کا بہت بڑا کارنامہ ہے، صحابہ کرام اگر اس طرح سے باریک بینی نہ کرتے تو یہ دین ہم تک نہ پہنچتا۔

اس کے علاوہ صحابہ کرام نے راہِ اسلام میں جو تکالیف برداشت کیں ان کی کہیں مثال نہیں ملتی، خصوصاً حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت عمر فاروق ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت ابو ابو ذر غفار ی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں۔، ان لوگوں نے جو تکالیف اٹھائیں، جو ظلم برداشت کیے، ذہنی اور جسمانی اعتبار سے ہماری تکالیف وغیرہ ان کے آگے ذرہ بھی نہیں ہیں، انہوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگ کے لیے چلے جانا،او ر جنگ نہ بھی ہوتی ہو تو بھی تکلیفیں برداشت کرکے ان کے احسانات کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے ان کی ان کاوشوں محنتوں کے صلا میں خود رب کائنات نے ان کو رضی اللہ عنہم و ر ضو عنہ کا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا، تو جن سے ان کا رب راضی ہوجائے ان کی عظمت کو سلام ہے۔

اللہ رب العزت اپنے نیک بندوں کی فضیلت اپنی شان والی کتاب میں سورہ الفتح کی آیت مبارکہ ۲۹ میں ارشاد فرمارہا ہے۔ترجمہ کنزالایمان ۔ محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ لو گ جو ان کے ساتھ ہیں کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں بڑے رحم دل ہیں، تم انہیں دیکھو گے رکوع کرتے ہوئے سجدے کی حالت میں، اللہ کے فضل کو تلاش کرتے ہیں،اور رضا مندی کو تلاش کرتے ہیں۔

تو جن پاکیزہ نفوس کی نشانی رب کا قرآن بیان کرے ان کا احترام ہر مسلمان پر واجب ہے، کیونکہ ان ہستیوں کے ہم پر ہمارے دین و ایمان کے حوالے سے بڑے احسانات ہیں اور احسان کا بدلہ احسان ہے اللہ رب العزت کی ذا ت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پاکیزہ نفوس کی فضیلتوں کو سمجھنے اوران فضیلتوں سے فیض حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابۂ کرام کے فضائل

Mon, 31 Aug , 2020
3 years ago

فضائل صحابہ اور قرآن پاک:

۱۔ اے نبی(غیب ک خبریں دینے والے) آپ کے لیے اللہ کافی ہے۔ اور آپ کے پیروکار مؤ من (کافی ہیں)

۲۔ اور جنہوں نے اللہ اور رسول کے حکم کی تکمیل کی بعد اس کے کہ انہیں زخم لاحق ہوچکا تھا ان میں سے نیکو کار وں کے لیے اجر عظیم ہے۔

۳۔ وہ جو ایمان لائے ہجرت کی اور اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور امداد کی، وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیےمغفرت اور عزت والا رزق۔

فضائل صحابہ اور حدیث پاک:

۱۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے صحابہ کو گالی نہ دو قسم ہے اس ذات اقدس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے ایک شخص احد پہاڑ کی مثل سونا خرچ کرے تو ان کے سیر اور آدھے سیر کو بھی نہیں پہنچ سکے گا۔

۲۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے صحابہ کرام کی عزت کرو کہ وہ تمہارے بہترین افراد ہیں پھر جو ان کے ساتھ متصل ہوں گے پھر وہ جوان سے متصل ہوں گے۔

فضائل صحابہ کرام:

یہ وہ اصحابِ ایمان تھے جو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ایمان لائے اور انہوں نے آپ کی تصدیق کی جب کہ دوسرے لوگ آپ کی تکذیب کر رہے تھے صحابہ کرام علیہم الرضوان وہ مقدس نفوس ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ نازل کیے ہوئے نور قرآن کی پیروی کی وہ آپ کے مخلص وزرا ، اصحاب محبت انصار اور سچے مددگار تھے وہ آپ کی شریعت کا دفعاع کرتے رہے، انہوں نے اسلام کا پیغام پھیلانے کے لیے اپنے وطن چھوڑ دیئے ،یہ وہ منتخب ترین جماعت ہے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنا دین زمین پرنافذ کیا۔( مطبوعہ مکتبہ اہلسنت العقائد و المسائل عربی اردو)

ہر صحابی نبی ، جنتی جنتی ، جنتی جتنی

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں

صحابہ کرام کے فضائل

Mon, 31 Aug , 2020
3 years ago

صحابۂ کرام وہ مبارک ہستیاں  ہیں جنہوں نے ہوش و ایمان کی حالت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا یا صحبت میں حاضر ہوئے اور ایمان پر خاتمہ ہوجائے انہیں صحابی کہتے ہیں، صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تعظیم ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے۔

انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے بعد صحابہ کرام علیہم الرضوان تمام انسانوں میں سب سے زیادہ تعظیم و توقیر کے لائق ہیں یہ وہ مقدس و مبارک ہستیاں ہیں جنہوں نے امام الانصار والمہاجرین ، جناب رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا، دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور تن من دھن سے املاک کے آفاقی اور ابدی پیغام کو دنیا کے گوشتے گوشے میں پہنچانے کے لیے کمر بستہ ہوگئے، تاریخ گواہ ہے کہ ان مبارک ہستیوں نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو عام کرنے اور پرچمِ اسلام کی سربلندی کے لیے ایسی بے مثال قربانیاں دی ہیں کہ آج جن کا تصور بھی مشکل ہے۔

رسول اکرم نورِ مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روئے زیبا کی زیارت وہ عظیم سعادت ہے کہ دنیا جہان کی کوئی نعمت اس کے برابر نہیں ہوسکتی اورصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو وہ ہیں کہ شب و روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور آپ کی صحبت فیض سے مستفیض ہوتے رہے۔(فیضان ِ صحابہ ۸ تا ۹)

صحابۂ کرام وہ مقدس ہستیاں ہیں کہ جن کے اوصاف حمیدہ اللہ عزوجل نے خود بیان فرمائے تو ان کی عظمت و رفعت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے؟چنانچہ ارشاد ربانی ہے: تَرجَمۂ کنز الایمان: اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔پارہ ۱۰،سورہ الانفال ، آیت نمبر۷۴)

اسی طر ح اللہ پاک نے صحابہ کرام کو اپنی رضا، جنت اور کامیابی کا مژدہ سناتے ہوئے ارشاد فرمایا ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

تَرجَمۂ کنز الایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے(پارہ ۱۱، سورہ توبہ آیت نمبر ۱۰۰)

اسی طرح صحابہ کرام کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل نے میرے صحابہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کو نبیوں اور رسولوں (علیہم الصلوة والسلام) کے علاوہ تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے۔

آقا علیہ الصلوة والسلام نے یہ بھی ارشاد فرمایا ۔کہ اس مسلمان کو جہنم کی آگ نہی چھوئے گی جس نے میری یا میرے صحابہ کی زیارت کا شرف حاص کیا ہو

آقا علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا کہ میرے صحابہ میں سے جوہماری جس سرزمین میں فوت ہوگا تو قیامت کے دن ان کے لیے نور اور رہنما بنا کر اٹھایا جائے گا۔(فیضانِ صحابہ ص ۱۴)

آقا علیہ الصلوة ولاسلام نے صحابہ کرام کی شان و عظمت اور افضلیت کو بیان کرتے ہوئے ارشآد فرمایا کہ میرے ہر صحابی جنتی ہیںتو ایک صحابی کے لیے اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہوسکتی ہے انہیں خود آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیاہی میں جنت کی خوشخبری سنادی ۔

ہر مسلمان کو چاہیے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا انتہائی ادب و احترام کے ساتھ ذکر خیر کرتے ان کی عقیدت و محبت کو دل میں جگہ دے کیونکہ ان کی محبت میں اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے۔

اللہ عزوجل ہمیں ہرصحابہ سے محبت کرنے اور ان کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں