حقوق العباد کا معاملہ بڑا نازک ہے، ہمیں ہر وقت اس
معاملے میں احتیاط کرنی چاہیئے۔ بندوں کے دل
ہماری وجہ سے نہ دکھیں نہ ہی کسی طرح کی کوئی تکلیف ہماری وجہ سے کسی مخلوق کو
پہنچے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ مومن وہ
ہے جس سے لوگ بے خوف رہیں اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں۔
(مسند امام احمد، 4/308، حدیث: 12562)
ہم انسان ہیں اور کبھی ہم سے بتقاضہ بشریت کسی ذات
کو تکلیف پہنچ جائے تو ہمیں چاہیے کہ فوراً معذرت کرلیں اور رب کی بارگاہ میں توبہ
و تائب ہوتے رہیں اور جب معذرت کی جائے تو چاہیے کہ اسے (وہ شخص) قبول کرے اگر
کوئی معافی مانگنے آئے تو چاہیے کہ اسے مایوس نہ کریں بلکہ اسے معاف کردیں۔ حدیث
پاک میں ہے: جس کے پاس اس کا بھائی معذرت کرنے کے لئے آیا تواسے چاہیے کہ اپنے
بھائی کو معاف کردے، خواہ وہ جھوٹاہو یا سچا۔ جو معاف نہیں کرے گا حوض کوثرپر نہ
آسکے گا۔ (مستدرک، 5/213، حدیث:
7340)
ایک اور جگہ پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ
پاک معاف کر دینے سے بندے کی عزت ہی میں اضافہ فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 6592)
اس فرمان عالی شان کی وضاحت یہ ہے کہ جو شخص معاف و
درگزر کرتا ہے تو ایسے شخص کا مقام و مرتبہ لوگوں کے دلوں میں بڑھ جاتا ہے، ایک
معنی اس کا یہ بھی ہے کہ اس سے مراد اخروی اجر اور وہاں کی عزت ہے۔ (دلیل الفالحین،
4 / 538 ملخصاً)
اے عاشقان رسول! افسوس! کہ آج بات بات پر ناراض یا
بدگمان ہوکر تعلقات قطع کر دیئے جاتے ہیں۔ معافی مانگنے کی زحمت بھی نہیں اٹھائی
جاتی اور کوئی معافی مانگ بھی لے تو اسے رسوا کیا جاتا ہے۔ اے عاشقان رسول! ان
احادیث مبارکہ کی روشنی میں غور کریں تو ہمارے لئے اجر ہی اجر ہے۔ معافی مانگنے پر
بھی اور معاف کر دینے پر بھی۔ اور جو اپنے بھائی کی معذرت قبول نہ کرے اس کے لئے
سخت وعیدیں بھی ہیں۔
یاد رہے! اپنے ذاتی حقوق تو معاف کرنے میں ہماری
عزت ہے لیکن شرعی حقوق پامال کرنے والوں کو رعایت دینے سے جرائم میں اضافہ ہوتا ہے
لہٰذا ایسے لوگوں کو شرعی تقاضوں کے مطابق سزا ہی دی جائے گی۔
دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مكتبۃ المدینہ کی
مطبوعہ 862 صفحات پر مشتمل کتاب سیرت مصطفے ﷺ صفحه 604صفحہ 605 پر ہے: حضور نبی
اکرمﷺ ایک سفر میں آرام فرما رہے تھے کہ غورث بن حارث نے آپ ﷺ کو شہید کرنے کے
ارادے سے آپ ﷺ کی تلوار لے کرنیام سے کھینچ لی، جب سرکار نامدار ﷺنیند سے بیدار
ہوئے توغورث کہنے لگا: اے محمد ﷺ !اب آپ ﷺکومجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے
فرمایا: الله۔ نبوت کی ہیبت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور سر کار عالی وقار ﷺ
نے تلوار ہاتھ مبارک میں لے کر فرمایا: اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچانے والاہے؟
غورث گڑ گڑا کر کہنے لگا: آپ ﷺہی میری جان بچائیے۔ رحمت عالم ﷺنے اس کو چھوڑ دیا
اور معاف فرما دیا۔ چنانچہ غورث اپنی قوم میں آ کر کہنے لگا کہ اے لوگو! میں ایسے
شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیاکے تمام انسانوں میں سب سے بہتر ہے۔ (الشفا، 1/106)
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو
قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر
دعائیں دیں
میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے مدنی آقا ﷺ نے
قاتلانہ حملے کی کوشش کرنے والے کو معاف فرما دیا اور اس سے کیسا حسن سلوک فرمایا،
میٹھے مصطفی ﷺکی دیوانیو ! خواہ کوئی آپ کو کتنا ہی ستائے، دل دکھائے ! عفو و
درگزر سے کام لیجئے اور اس کے ساتھ محبت بھر اسلوک کرنے کی کوشش فرمائیے۔
معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے۔ خاتم المرسلين، رحمةٌ
للعلمین ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ
دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے
والے) کی عزت ہی بڑھائے گا اورجوالله کے لیے تواضع ( یعنی عاجزی ) کرے، اللہ اسے
بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1397، حدیث: 2588)
گالیوں بھرے خطوط پر اعلیٰ حضرت کا عفو و درگزر: کاش
! ہمارے اندر یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ ہم اپنی ذات اور اپنے نفس کی خاطر غصہ کرنا
ہی چھوڑ دیں۔ جیسا کہ ہمارے بزرگوں کا جذبہ ہوتا تھا کہ ان پر کوئی کتنا ہی ظلم
کرے یہ حضرات اس ظالم پر بھی شفقت ہی فرماتے تھے۔ چنانچہ حیات اعلیٰ حضرت میں ہے:
میرے آقا اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن کی خدمت میں ایک بار جب ڈاک پیش کی گئی تو
بعض خطوط مغلظات ( یعنی گندی گالیوں ) سے بھر پور تھے۔ معتقدین برہم ہوئے کہ ہم ان
لوگوں کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے۔ امام اہلسنت نے ارشاد فرمایا: جو لوگ تعریفی
خطوط لکھتے ہیں پہلے ان کو جا گیریں تقسیم کر دو، پھر گالیاں لکھنے والوں پر مقدمہ
دائر کر دو۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/43
ملخصاً)
مطلب یہ کہ جب تعریف کرنے والوں کو تو انعام دیتے
نہیں پھر برائی کرنے والوں سے بدلہ کیوں لیں!
احمد رضا کا تازہ گلستاں ہے آج بھی خورشید علم ان کا درخشاں ہے
آج بھی
جنت پانے کے تین نسخے: آخری
نبی ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ پاک ( قیامت کے دن ) اس کا
حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو (اپنی رحمت سے ) جنت میں داخل فرمائے گا۔
میں نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺوہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: جو تم سے قطع تعلق کرے
(یعنی تعلق توڑے ) تم اس سے ملاپ کرو، جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو اور
جوتم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔ (معجم اوسط، 1/263، حديث: 909)
حضرت مولینا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تو برائے وصل کردن آمدی نے برائے فصل کردن آمدی
یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کیلئے آیا ہے تو ڑ پیدا کرنے کیلئے نہیں آیا )۔ (مثنوی، 1/173)
مدنی وصیتیں: فرمان امیر
اہلسنت الحمد لله! عاشق مدینہ عفی عنہ ( امیر اہل سنت نے بطور عاجزی یہاں پر سگ
مدینہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے) نے رضائے
الہی پانے کی نیت سے اپنے قرضداروں کو پچھلے قرضوں، مال چرانے والوں کو چوریوں، ہر
ایک کو غیبتوں، تہمتوں، تذلیلوں، ضربوں سمیت تمام جانی مالی حقوق معاف کئے اور
آئندہ کیلئے بھی تمام تر حقوق پیشگی ہی معاف کر دیئے ہیں، چنانچہ عاشقان رسول کی
مدنی تحریک دعوت اسلامی کے مکتبۃ المدینہ کے رسالے مدنی وصیت نامہ (16 صفحات ) صفحہ
9 پر عزت و آبرو اور جان کے متعلق ہے: مجھے جو کوئی گالی دے، برا بھلا کہے (
غیبتیں کرے )، زخمی کر دے یا کسی طرح بھی دل آزاری کا سبب بنے میں اسے اللہ پاک کے
لئے پیشگی معاف کر چکا ہوں، مجھے ستانے والوں سے کوئی انتقام نہ لے۔ بالفرض کوئی
مجھے شہید کر دے تو میری طرف سے اسے میرے حقوق معاف ہیں۔ ورثا سے بھی درخواست ہے
کہ اسے اپنا حق معاف کر دیں (اور مقدمہ وغیرہ دائر نہ کریں )۔ اگر سرکار مدینہ ﷺ
کی شفاعت کے صدقے محشر میں خصوصی کرم ہوگیا تو ان شاء اللہ اپنے قاتل یعنی مجھے
شہادت کا جام پلانے والے کو بھی جنت میں لیتا جاؤں گا بشرطیکہ اس کا خاتمہ ایمان
پر ہوا ہو۔ (اگر میری شہادت عمل میں آئے تو اس کی وجہ سے کسی قسم کے ہنگامے اور
ہڑتالیں نہ کی جائیں۔ اگر ہڑتال اس کا نام ہے کہ لوگوں کا کاروبار زبردستی بند
کروایا جائے۔ نیز دکانوں اور گاڑیوں پر پتھراؤ وغیرہ ہو تو بندوں کی ایسی حق
تلفیوں کو کوئی بھی مفتیِ اسلام جائز نہیں کہہ سکتا۔ اس طرح کی ہڑتال حرام اور
جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
پیاری اسلامی بہنو! جیساکہ ہم نے پڑھا کہ کسی کی
غلطی پر معاف کردینےکی بہت فضیلت ہے وہیں کسی کی معذرت پر اس کو معاف نہ کرنے کی
وعید بھی موجود ہے جیسا کہ ہمارے مکی مدنی آقا میٹھے میٹھے ﷺنے ارشاد فرمایا ہے: جو
کوئی اپنے مسلمان بھائی سے معذرت کرے اور وہ بلا اجازت شرعی اس کا عذر قبول نہ کرے
تو اسے حوض کوثر پر حاضر ہونا نصیب نہ ہوگا۔ (معجم اوسط، 2/376، حدیث: 6295 )
یااللہ! ہماری صفوں میں اتحاد پیدا فرما۔ یااللہ! ہمیں
ذہنی ہم آہنگی نصیب فرما۔
تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرم دیتی ہوں واسطہ تجھے شاہ حجاز کا
معذرت کا معنی معافی مانگنا ہے کس چیز کی؟کسی کے
ساتھ تلخ کلامی کر دی تو معافی مانگنا، کسی کا دل دکھا دیا، کسی کو برا بھلا کہا
وغیرہ کی معافی مانگنا۔ کہتے ہیں انسان خطا کا پتلا ہے۔ شیطان کے لیے ہمیں بہلانا
پھسلانا کوئی مشکل کام نہیں اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا(۵۳)
(پ 15، بنی اسرائیل: 53) ترجمہ: بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
کبھی انسان کو انا کے نام پر دوسروں کے ساتھ تعلق
توڑنے کو کہتا ہے اور کبھی انسان کے اندر غرور و تکبر پیدا کر کے انہیں لوگوں کی
دل آزاری کرنے کو کہتا ہے۔ ایسے میں ہم جیسے کمزور نفس کے مالک سے یہ خطا سرزد ہو
جاتی ہے۔ تو ایسے میں کیا کیا جائے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے اپنے کیے کی لیکن کیا
وہ میری معافی قبول کرے گا۔
معافی قبول ہونے کے مراحل: معافی
قبول ہونے کا پہلا مرحلہ شرمندگی ہے دوسرا مرحلہ معافی مانگنا ہے اس شخص سے جس کی
دل آزاری کی ہے اور تیسرا مرحلہ جو کہ سب سے بڑا درجہ ہے کہ جس سے معافی مانگی
جارہی ہے وہ اسے معاف کر دے۔
شیطان کے بہلاوے: لیکن
اب یہاں پر بھی شیطان ہمیں چھوڑ تو نہیں سکتا اب ہم سب لوگوں کی طرح اس کی بھی ایک
ڈیوٹی ہے اور شیطان اپنی اس ڈیوٹی کو پورے خشوع و خضوع سے ادا کرتا ہے: ارے تم
کیوں معاف کرو گے اسے اس نے تمہیں یہ کہا اس نے تمہیں وہ کہا جہاں بھر کی ساری اس
کی برائیاں لا کر پیش کر دے گا اور بعض لوگ پھر نفس کے بہکاوے میں آکر معاف نہیں
کرتے۔
افسوس !ہم اس معاملے میں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ
اللہ کو رحم کرنا بے حد پسند ہے اور یہ اس رحمان کی صفت بھی ہے۔ ہم بھی تو خطا
کرتے ہیں بار بار خطا کرتے ہیں اور بار بار اللہ سے معافی مانگتے ہیں جو خطا نہ
کرے وہ تو فرشتہ ہوا انسان تھوڑی، ہاں دل ازاری ہوتی ہے لوگوں کے رویے سے ان کے
جملے سے ان کی باتوں سے لیکن اگر بندہ آپ سے معافی مانگ لے شرمندگی کا اظہار کرے
تو پھر اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے۔
نبی کے خاطر معاف کرنا: معاف
کر دیں لوگوں کو یہ سوچ کر کہ آپ ﷺ جب تک ساری امتی جنت میں نہ چلے جائیں تب تک
جنت میں نہیں جائیں گے آخری امتی کے جنت میں داخل ہونے تک انتظار کرتے رہیں گے اور
یہ نہ ہو کہ یہ وہ شخص ہو جس نے ہم سے معافی مانگی ہو اور ہم نے اسے معاف نہ کیا
ہو اور اب وہ اس کا حساب دے رہا ہو۔
معذرت قبول نہ کرنا از بنت ہدایت اللہ،
فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ
معذرت قبول نہ کرنا معافی قبول نہ کرنے کے معنی میں
ہی آتا ہے اگر کوئی سچے دل سے معذرت کرے تو اس کی معذرت قبول کر لی جائے اگر کوئی
معذرت کرے ہم سے اپنی کسی غلطی کی تو ہم اسے معاف نہ کریں اس کی معذرت قبول نہ
کریں تو ہو سکتا ہے معذرت کرنے والے کی دل آزاری ہو اور اگر کوئی غلطی کرے تو
معذرت نہ کرے تو ہمیں اس کے بارے میں اپنے دل میں کوئی بدگمانی نہیں رکھنی چاہیے
بلکہ اسے معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے اگر کوئی ہم سے معذرت کرے تو
ہمیں اسے معاف کر دینا چاہیے بندہ کیا چیز ہے جب رب تعالی بندے کی سچے دل کی ایک
معذرت معافی کو قبول کر سکتا ہے تو بندہ پھر کیوں نہیں کسی کو معاف کر سکتا یا کسی
کی معذرت قبول نہیں کرتا معافی معذرت توبہ کرنا تینوں ایک ہی معنی میں آتے ہیں
توبہ رب تعالی کی ذات سے کی جاتی ہے اور معذرت وغیرہ رب تعالی کے بندوں سے کی جاتی
ہے اگر ہم سے کوئی غلطی گناہ وغیرہ سرزد ہو جائے توتوبہ معذرت کے بارے میں حدیث
مبارکہ ہے: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ (ابن
ماجہ، 4/491، حدیث: 4650)
توبہ یعنی معذرت کی ترغیب: توبہ کی بڑی اہمیت ہے
اور یہ اللہ پاک کا ہم پر کرم ہے کہ اس نے ہمیں توبہ جیسی نعمت عطا فرمائی ہے بندہ
کتنا خوش نصیب ہے کہ اگر بتقائے بشریت اس سے جھوٹ غیبت شراب نوشی یا کوئی اور گناہ
سرزد ہو جائے اور پھر وہ اللہ کی بارگاہ میں شرمندہ ہو کر معافی مانگ لے تو اسے
معافی مل جاتی ہے۔ اپنے گناہوں غلطیوں کو یاد رکھیں اور فورا سے گناہوں کی معافی
اور غلطیوں کی معذرت کر لیا کریں نہ جانے کب زندگی ختم ہو جائے تو ہمیں اپنی
گناہوں اور غلطیوں سے معذرت کرنے کا موقع ہی نہ ملے اس بارے میں ایک نوجوان کا واقعہ
بیان کرتی ہوں جو اپنے گناہ یاد رکھتا اور لکھتا تھا، چنانچہ
ایک نوجوان اللہ پاک سے بہت ڈرتا تھا اور جب بھی اس
سے کوئی گناہ سرزد ہوتا تو اسے اپنی ڈائری میں لکھ لیتا ایک بار جب اس نوجوان سے
کوئی گناہ سرزد ہوا اور اس نے حسب معمول اپنی اس گناہ کو لکھنے کے لیے اپنی ڈائری
کھولی تو اس پر پارہ 19 سورہ فرقان کی آیت نمبر 70 کا یہ حصہ تحریر تھا: ترجمہ کنز
العرفان: تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان
ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 27)
اگر گناہوں کو یاد رکھنے سے رب تعالیٰ کی ذات بندے
کو بخش سکتی ہے تو پھر اپنے گناہوں سے توبہ معذرت کرنے پر بھی ضرور بخش دے گی مگر
توبہ اور معذرت سچے دل سے ہو دوسروں کو ان کے گناہوں اور غلطی پر شرمندہ نہیں کرنا
چاہیے کہ وہ معذرت کریں یا معافی مانگیں بلکہ اصلاح کا ایک طریقہ ہوتا ہے اس بارے
میں حدیث مبارکہ بھی ہے: جس نے اپنے بھائی کو ایسے گناہ پر شرم دلائی جس سے وہ
توبہ کر چکا ہے تو مرنے سے پہلے وہ خود اس گناہ میں مبتلا ہو جائے گا۔ (ترمذی، 4/662، حدیث: 2513)
شرحِ حدیث: گناہ سے وہ گناہ مراد ہے جس سے وہ توبہ
کر چکا ہے یا وہ پرانا گناہ جسے لوگ بھول چکے یا خفیہ گناہ جس پر لوگ مطلع نہ ہوں
اور عار دلانا توبہ کرانے کے لیے نہ ہو محض غصہ اور جوش غضب سے ہو یہ کوئی اور
خیال میں رہیں مزید یہ کہ ایسا شخص اپنی موت سے پہلے یہ گناہ خود کرے گا اور اس
میں بدنام ہوگا مظلوم کا بدلہ ظالم سے خود رب تعالی لیتا ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6/473)
معذرت قبول نہ کرنا از بنت محمد وارث
علی، فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ
ہمارے پیارے نبی، مکی مدنی مصطفے ﷺ ہم نے اپنے
صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں برا شخص کون ہے؟
صحابہ نے عرض کیا جی ہاں اگر آپ اس کو بہتر سمجھے۔ حضور پاکﷺ نے فرمایا وہ شخص جو
قصور کرنے والے کے عذر کو تسلیم نہ کرئے معذرت کو قبول نہ کرئے اور خطا کو معاف نہ
کرے وہ تم میں سب سے برا ہے۔ شیطان انسان کا دشمن ہے وہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ
مسلمان آپس میں مل کر رہیں اور یہ بھی درست ہے کہ کسی کو معاف کرنا نفس پر بہت
گراں گزرتا ہے لیکن پیاری اسلامی بہنو! ہمیں چاہیے کہ معاف کرنے کے فضائل پر اور اللہ
پاک سے بہترین اجر کی امید رکھتے ہوئے دوسروں کو معاف کر دیں آئیے اس ضمن میں چند
آیات اور احادیث مبارکہ جان لیتے ہیں:
آیات کریمہ:
1۔ وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ
سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى
اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰) (پ 25، الشوریٰ:40)ترجمہ
کنز العرفان: اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام
سنواراتو اس کا اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔
پیاری اسلامی بہنو! اس آیت پر غور کیا جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک ظالم کو پسند نہیں فرماتا اور معاف کرنے والوں کا اجر
اسی کے ذمۂ کرم پر ہے۔
2۔اور ارشاد فرمایا: وَ
لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ
لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور:22) ترجمہ
کنز الایمان: اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ
اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
حضرت عبد الله بن مسعود سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: بے شک الله تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند
فرماتا ہے۔ (مستدرك، 5 / 546، حدیث:
8216)
احادیث مبارکہ:
1۔ جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے سامنے عذر پیش
کرے اور وہ اسے معذور نہ سمجھے یا وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو اس پر ٹیکس وصول
کرنے والے کی مثل گناہ ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)2۔ حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ ﷺ
کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی
جائیں اور جب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ ﷺ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے، اور
آپ کو جب بھی دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے
بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔
پیاری اسلامی بہنو! اگر احادیث مبارکہ اور دیگر کتب
کا مطالعہ کیا جائے تو معاف کرنے کے اور بھی بہت فضائل موجود ہیں۔
معذرت کے معنی: معذرت عربی زبان کا لفظ ہے الزام سے بری ہونا
عذر قبول کرنا معذرت کے معنی میں آتے ہیں اور اعتذار کے معنی ہیں عذر بیان کرنا۔ آج
کل معذرت بھی مشروط ہوتی ہے یعنی کہنے والا کہتا ہے اگر میری بات سے کسی کی یا
فلاں شخص کی دل ازاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں اس کے واضح یہ معنی یہ ہیں کہ
وہ اپنی بات کی صحت پر اصرار کر رہا ہوں اور اس کے کلام سے جو معنی سننے اور پڑھنے
والے کو واضح طور پر سمجھ میں اآا ہے اسے ان کے فہم کا تصور قرار دیتا ہے لہذا یہ
معذرت کسی بھی صورت میں معافی نہیں ہے۔ معافی اسے کہتے ہیں جب انسان اپنی غلطی کا
اعتراف کرے اس پر نادم ہو اور غیر مشروط طور پر اس کی معافی مانگے البتہ غیر مشروط
طور پر اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے جو معذرت کی جائے یا معافی مانگی جائے وہ
قابل تحسین ہے اور ایسے شخص کی معذرت قبول کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ امر ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ حضرت
جودان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے
سامنے اپنی کسی غلطی پر معافی مانگ لی اور اس نے یہ معافی قبول نہ کی تو اس پر
ایسا ہی گناہ ہوگا جیسے ٹیکس کی وصولی میں خیانت یا زیادتی کرنے والے پر ہوتا ہے۔ (ابن
ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
2۔ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ بیان کرتی
ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم پاک دامنی اختیار کرو تاکہ تمہاری عورتیں بھی پاک
دامن ہوں تم اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو تاکہ تمہاری اولاد بھی تمہارے
ساتھ نیک برتاؤ کرے اور جو اپنی کسی غلطی پر اپنے مسلمان بھائی سے معافی مانگے اور
وہ اس کی معافی کو قبول نہ کریں تو وہ میرے حوض کوثر پر نہیں آئے گا۔ (معجم اوسط، 4/376،
حدیث:6295)
3ـ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان
کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے اپنی زبان کو لوگوں کی پردہ دری سے روکے
رکھا اللہ تعالی کے قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جس نے اپنے غصے پر
قابو پایا اللہ پاک اپنے عذاب کو اس سے روک دے گا اور جو اللہ رب العزت کے حضور
اپنی خطاؤں پر معافی کا طلبگار ہو اللہ پاک اس کی معافی کو قبول فرمائے گا۔ (مراۃ
المناجیح، 6/667)
پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے حضورﷺ نے اپنے
مسلمان بھائی کی معذرت قبول نہ کرنے کو حوض کوثر سے سیراب ہونے کی محرومیت کا سبب
قرار دیا ہے اور اللہ پاک بھی بروز قیامت ایسے شخص کو معاف نہیں کرے گا لہذا ہمیں
چاہیے ایک دوسرے سے دل کی گہرائیوں سے معافی مانگیں اور ایک دوسرے کو معاف کر دیں
تاکہ بروز قیامت ہماری اس پر پکڑ نہ ہو۔ آئیے چند اور احادیث مبارکہ جان لیتے ہیں:
4۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہﷺ نے فرمایا: اللہ اس آدمی پر رحم کرے جس نے اپنے بھائی کی عزت یا مال کے
معاملے میں نا انصافی کی ہو اور پھر اس کے پاس جا کر معذرت کر لی ہو قبل اس کے کہ
وہ دن آ جائے جس میں اس کا مواخذہ کیا جائے اور جہاں نہ دینار ہوگا نہ درہم وہاں
تو معاملہ یوں حل کیا جائے گا کہ اگر اس ظالم کے پاس نیکیاں ہوئیں تو اس سے نیکیاں
لے لی جائیں گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم لوگ اپنی برائیاں اس
پر ڈال دیں گے۔
5۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہﷺ نے فرمایا: ایسی بات سے اجتناب کر جس پر معذرت کرنا پڑے۔ (مسند امام احمد، 9/130،
حدیث: 23557)
معذرت کا معنی معذرت کا معنی معافی مانگنا معذرت
انگریزی میں apology،
چاہنا کسی حرکت بات یا صورتحال پر تاسف اور افسوس کا اظہار ہے معذرت کبھی خود کسی
وجہ سے رونما کیفیت اور ہو سکتی ہے اور کبھی اپنے متعلقین کی وجہ سے جو ہوا اس کی
وجہ سے بھی ممکن ہے۔
معذرت کے اردو معنی عذر حیلہ بہانہ معافی درگزر دراصل
معذرت کا مطلب بھی معافی ہی ہوتا ہے تاہم معذرت کرتے ہوئے معافی کے لفظ کی اصل بھی
عربی ہے جس کا معنی ہوتا ہے رہائی خلاصی نجات عفو معاف دوسروں کی حرکت یا بات پر
معذرت اس وقت ممکن ہے جب خطا کار کا کسی شخص سے کچھ تعلق ہو جیسے کہ کسی شرارتی
بچے کی شرارت کے لیے ممکن ہے معافی مانگنا انگلش میں معذرت کا معنی sorry
ہے۔
معاف کرنے میں فضیلت ہے احادیث مبارکہ:
جب بھی دو گرو مقابلے میں ہوں ان میں کامیاب فتح
وہی گروہ ہے جس میں عفو و معاف کرنے کا مادہ زیادہ ہو۔
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: جو حق پر ہونے کے باوجود
جھگڑا نہیں کرتا میں اس کے لیے اعلی جنت میں گھر کا ضامن ہوں۔ (ابو داود، 4/332،
حدیث: 4800)
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے جنت میں اونچے اور
شاندار محل دیکھے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ کن لوگوں کے لیے ہیں جبرائیل
علیہ السلام نے کہا: یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو
معاف کر دیتے ہیں۔ (عوارف المعارف، ص 457 )
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنے بھائی سے
معذرت کرے اور پھر وہ اس سے قبول نہ کرے تو اس سے اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا محصول
ٹیکس کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔(ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی کے پاس اپنی
غلطی پر معذرت کرنے کے لیے ائے تو اس سے قبول کرنا چاہیے خواہ وہ سچا ہو یا جھوٹا
اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو میرے پاس حوص کوثر تک نہ پہنچ سکے گا۔ (مستدرک، 5/213،
حدیث:7340)
سب سے زیادہ ناقص العقل وہ ہے جو غلطی پر معذرت
کرنے والوں کو معاف نہ کرے۔
غصے کے وقت معاف کرنے کی فضیلت: معاذ
بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص غصے کو پی
جائے جبکہ وہ بدلہ لینے پر قادر ہو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اسے تمام مخلوقات کے
سامنے بلائے گا اور اس سے کہے گا وہ وہ شخص جس حور عین کو چاہے اپنے لیے پسند کرے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو معاف کر دیا کرو
تمہاری مغفرت کر دی جائے گی۔ (مسند امام احمد، 2/525)
لوگوں کو اسی طرح معاف کرو جیسے اللہ رب العزت سے
امید رکھتے ہو کہ وہ تمہیں معاف کر دے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں دو
اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب کبھی تولا نہیں جا سکتا معاف کرنا اور انصاف کرنا اگر
عزت دینا اور معاف کرنا تمہاری کمزوری ہے تو تم دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور انسان
ہو۔
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں: جب امتیں بروز قیامت
اللہ کے حضور گھٹنوں کے بل گری ہوں گی تو اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ
کرم پر ہے کھڑا ہو جائے تو صرف وہی لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے جو دنیا میں لوگوں کو معاف
کر دیا کرتے ہوں گے۔
اسلامی بہنوں سونے سے پہلے سب کو معاف کرنے کی عادت
بنا لو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری وجہ سے پیارے نبی ﷺ کا کوئی امتی جہنم کا ایندھن
بن جائے۔
معذرت (انگریزی Apology)
چاہنا کسی حرکت بات یا صورت حال پر تاسف اور افسوس کا اظہار ہے۔ معذرت کبھی خود کی
وجہ سے رو نما کیفیت پر ہو سکتی ہے اور کبھی اپنے متعلقین کی وجہ سے جو ہوا اس کی
وجہ سے بھی ممکن ہے۔
قرآن پاک میں معاف کرنے کی فضیلت: وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ
الْاُمُوْرِ۠(۴۳) (پ 25، الشوریٰ: 43) ترجمہ
کنز العرفان: اور بیشک جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں
میں سے ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ
اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور:22)
ترجمہ کنز الایمان: اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں
رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ
جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ
عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰) (پ 25، الشوریٰ:40)ترجمہ کنز العرفان:
اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا
اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔
معذرت قبول کرنے کے بارے میں احادیث ملاحظہ کیجئے:
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک الله تعالیٰ
درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔ (مستدرك، 5 / 546، حدیث: 8216)
معذرت قبول نہ کرنے والوں کے لیے وعید:
آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے سامنے عذر پیش کرے اور وہ اسے
معذور نہ سمجھے یا وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو اس پر ٹیکس وصول کرنے والے کی مثل
گناہ ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
ہمارے پیارے نبی ﷺ کا عمل: حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ بے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے
تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے اور برائی کا جواب
برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی
آپ ﷺ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بشرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی
جائیں اور جب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ ﷺ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے اور
آپ کو جب بھی دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ
وہ گناہ نہ ہو۔
آپ ﷺ نے بدلہ کبھی نہیں لیا رسول اکرم ﷺ نے کبھی
اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا
انتقام لیتے تھے۔ (بخاری، 2/489، حدیث: 3560)
واضح رہے کہ معافی مانگنے والے کے اور جس سے معافی
طلب کی جا رہی ہو، ان کے حالات مختلف ہیں اور حالات کے اعتبار سے حکم بھی مختلف
ہے۔ جس سے معافی طلب کی جا رہی ہو، اگر اسے اندازہ ہو کہ معافی مانگنے والے کو
معاف کر دیا تو وہ دوبارہ زیادتی کرے گا اور اس کے اس عمل کی حوصلہ افزائی ہوگی،
تو ایسی صورت میں اس کے فتق یا جہالت کی اصلاح کی نیت سے اسے معاف نہ کرنا اور
جائز بدلہ لینا یا قیامت کے دن کے بدلہ سے ڈرانا جائز ہے۔ تاہم ایسے شخص کے دل میں
یہ جذبہ ہونا بہتر ہے کہ جب اصلاح ہو جائے تو اسے دل سے معاف بھی کر دے۔ نیز اگر
یہ جذبہ بھی ہو کہ اصلاح نہ ہو، تب بھی دل سے معاف کر دے؛ تاکہ قیامت میں مسلمان
بھائی کی پکڑ نہ ہو، تو یہ اعلیٰ ظرفی کی بات ہے، اگر چہ اس پر لازم نہیں۔ اسی طرح
معافی مانگنے والا اگر اپنی زیادتی پر نادم (پشیمان و پریشان) نہ ہو، بلکہ رسمی
معافی مانگ رہا ہو اور صاحب حق اسے معاف نہ کرے تو اسے قیامت کے دن کی پکڑ سے ڈرنا
چاہیے۔
البتہ اگر معافی مانگنے والا نادم ہو کر معافی مانگ
رہا ہو، لیکن صاحب حق اسے معاف نہ کر رہا ہو، تب بھی معافی مانگنے والے کو چاہیے
کہ قیامت کے دن کی پکڑ سے خوف زدہ ہو کر صاحب حق کو منانے کی کوشش کرتا رہے۔ اور
اگر وہ نہ مانے تو اللہ کے فضل سے امید ہے کہ اس کی دلی ندامت کی وجہ سے قیامت کے
دن اس کی پکڑ نہ ہوگی۔ اور جس سے معافی مانگی جا رہی ہو، اگر اس کے سامنے معافی
مانگنے والے کا عذر واضح ہو اور معاف کرنے میں کوئی شرعی یا طبعی رکاوٹ بھی نہ ہو،
نیز اس کا کوئی نقصان بھی نہ ہو تو ایسے شخص کو معاف کر دینا چاہیے۔ (تفسير کبیر، 27
/ 604)
اگر معافی چاہنے والے کو معاف نہ کرے تو یہ معاف نہ
کرنے والا خاطی ہے۔
معذرت اور معاف کرنے کی عادت ڈالیے۔ اے اللہ ! اگر
میں نے کسی کا دل دکھایا ہو یا کسی کو تکلیف پہنچائی ہو تو مجھے اخلاقی جرات اور
حوصلہ دے کہ میں اس سے معذرت کر سکوں اور اگر کسی نے مجھے تکلیف یاد رکھ پہنچایا
ہو تو مجھے توفیق دے کہ میں اسے معاف کر سکوں۔
کسی کی خامیاں دیکھیں نہ یہ میری
آنکھیں نہ
کان بھی سنیں عیبوں کا تذکرہ یارب
اللہ تعالی کی صفات میں سے ایک صفت معاف کرناہے۔
اللہ اپنے بندوں کو معاف فرمانے والا ہے اور ہمارےپیارے آقا ﷺ بھی معاف فرمانے
والے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے
مسلمان بھائیوں کو معاف کرنا چنا ہے ان کی معذرت قبول کرنی چاہیے۔
عفوودرگزر: عفوودرگزر ایک ایسا پانی جو غضب کینہ
اور انتقام کی آگ کو بجھا دیتا ہےاور انسان کو روحی سکون، اطمینان اور زندگی سے
لذت حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا۔
قرآن پاک میں ہے: وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ
سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى
اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰) (پ 25، الشوریٰ:40)ترجمہ کنز العرفان:
اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا
اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔
فرمان مصطفی : جو اپنے بھائی سے معافی مانگے اور وہ
اس کی معافی قبول نہ کرے تو وہ میرے حوض کوثر پر نہیں آئے گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے عذر قبول کرو تا کہ
ان کی بھائی چارگی سے فائدہ اٹھا سکو۔ (شرح درر الحکم 2/512)
فرمان مصطفی ﷺ: معاف کرنے والے کی اللہ عزت بڑھا
دیتا ہے۔ (مسلم، 1397، حدیث: 2588)
حضرت امام موسی کاظم رضی اللہ عنہ نے ایک دن اپنے
فرزندوں کو جمع کیا اور فرمایا: اے میرے بیٹو! میں تمہیں ایک ایسی نصیحت کرتا ہوں
کہ جو بھی اس پر عمل کرے گا وہ گھاٹے میں نہیں رہے گا اگر کوئی شخص تمہارے پاس آئے
اور داہنے کان میں ناپسند باتیں کہے اس کے بعد دوسری طرف جا کر بائیں کان میں تم
سے معذرت چاہے کہ میں نے کچھ نہیں کہا تو اس کے عذر کو بھی قبول کر لو۔ (كشف
الغمہ، ص 812)
فرمان مصطفی ﷺ: جس نے اپنے مسلمان بھائی سے معذرت
کی اور اس نے بلا وجہ معذرت قبول نہ کی تو اس پر ظالمانہ ٹیکس لینے والےجتنا گناہ
ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
آج ہمارے معاشرے کو زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ
نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے۔ ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی ہے ہر
طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آواز یں سنائی دیتی ہیں۔ غلطی اور جرم سے بڑھ
کر سزا اور برے بدلے کی کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے۔
افسوس کہ آج ہمارے دل، رحم و کرم، صبر و تحمل اور
عفوو در گزر جیسی اعلیٰ صفات سے یکسرخالی ہو رہے ہیں۔ آیئے عزم کریں کہ ہم سب ایسی
زندگی گزاریں گے جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہواور اپنے اندر دیگر اعلیٰ صفات
کی طرح عفوو در گزرکی صفت بھی پیداکریں گے آئندہ اس یقین کے ساتھ لوگوں کو معاف
کریں گے کہ کل قیامت میں اللہ کریم عفو و درگزر کامعاملہ کرتے ہوئے ہماری غلطیاں
اور ہمارےجرائم معاف کر دے گا۔
معذرت عربی لفظ ہے، اس کے معنیٰ ہیں: الزام سے بری
ہونا، عذر قبول کرنامعذرت قبول نہ کرنا یعنی اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے، اور وہ
اپنا عذر پیش کرے تو اس کا عذر قبول نہ کرے۔ معذرت قبول نہ کرنے کے برعکس جو معاف
کردینے کو ترجیح دیتا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے اصلاح کرنے والا قرار دیا ہے اور اس
کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔
چنانچہ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے
1۔ اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا
اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا
قَدِیْرًا(۱۴۹)
(پ 6، النساء: 149) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم کوئی بھلائی اعلانیہ کرو یا چھپ کر
یا کسی برائی سے درگزر تو بے شک اللہ معاف کرنے والا قدرت والا ہے۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: اگر تم کوئی نیک کام
اعلانیہ کرو یا چھپ کریا کسی کی برائی سے درگزر کر و تو یہ افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ
سزا دینے پر ہر طرح سے قادر ہونے کے باوجود اپنے بندوں کے گناہوں سے درگزر کرتا
اور انہیں معاف فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اپنے اوپر ظلم وستم کرنے والوں کو معاف کر
دواور لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرو۔ (تفسیر سمرقندی، 1 / 401)
2۔ وَ لْیَعْفُوْا وَ
لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18،
النور:22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہیے کہ معاف
کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ
بخشنے والامہربان ہے۔
3۔ وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ
سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ
لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰) (پ 25، الشوریٰ:40)ترجمہ کنز العرفان:
اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا
اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔
آئیے
احادیث مبارکہ ملاحظہ فرما لیتے ہیں:
1۔ حضورﷺ نے فرمایا:۔ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے
معذرت کرے اور وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو، اسے حوض کوثر پر حاضرہونا نصیب نہ ہو
گا۔ (معجم الاوسط، 4/376،حدیث:6295)
2۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی سے
معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا محصول (
ٹیکس ) وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
3۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت
ہے کہ سلطان دوجہان،شہنشاہ کون ومکان ﷺ کا فرمان عظیم الشّان ہے: جسے یہ پسند ہوکہ
اس کے لیے(جنّت میں)محل بنایا جائے اوراس کے درجات بلند کیے جائیں،اسے چاہیے کہ جو
اس پرظلم کرے، یہ اسے معاف کرے اورجو اسے محروم کرے، یہ اسے عطا کرے اورجو اس سے
قطع تعلّق کرے یہ اس سے ناطہ(یعنی تعلّق)جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)
4۔ حضورﷺ نے ہمیں آپس میں دشمنی وحسد رکھنے،
تعلّقات توڑنےاور معذرت کرنے والوں کی معذرت کو ردّکرنےسے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ نبی
کریم،روفٌ رّحیم ﷺ کا فرمان دلنشین ہے:ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، نہ ایک دوسرے
سے دشمنی کرو،نہ حسد کرو، نہ تعلّقات توڑ نے والے بنو اور اللہ تعالیٰ کے بندو!
بھائی بھائی بن جاؤ۔مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے
محروم کرتا ہے اور نہ اسے رسوا کرتا ہے۔ (مسلم، ص 1386،
حدیث: 2564)
5۔ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوااور عرض
کی:یارسول اللہ ﷺ!ہم خادم کو کتنی بارمعاف کریں؟آپ خاموش رہے۔اس نے پھر وہی سوال
دہرایا،آپ پھر خاموش رہے،جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستّر بار۔
(ترمذی، 3/381، حدیث:1956)
6۔ حضورﷺ نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف
کرے گاقیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)
معذرت کے معنی: ۔معتدت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے
معنی ہیں الزام سے بری ہونا عذر قبول کرنا اعتزار کے معنی ہیں عذر بیان کرنا پس
معذرت اور اعتزار کے معنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔
آج کل معذرت بھی مشروط ہوتی ہے یعنی کہنے والا کہتا
ہے اگر میری بات سے کسی کی یافلاں شخص کی دل آزادی ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں
اس کے واضح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی بات کی صحت پر اصرار کر رہا ہے اور اسکے کلام سے
جو معنی سننے اور پڑھنے والے کو واضح طور پر سمجھ میں آتے ہیں اسے انکے فہم کا
تصور قرار دیتا ہے لہذا یہ معذرت کی کسی بھی صورت میں معافی نہیں ہے۔ معافی اسے
کہتے ہیں جب انسان اپنی غلطی کااعتراف کرے اور اس پر نادم ہو اور غیر مشروط طور پر
اس کی معافی مانگے۔ البتہ غیر مشروط طور پر اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے جو معذرت
کی جائے یا معافی مانگی جائے وہ قابل تحسین ہے۔ اور ایسے شخص کی معذرت قبول کرنا
شریعت کی نظر میں پسندیدہ امر ہے۔
احادیث مبارکہ:
حضرت جودان رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے سامنے اپنی کسی غلطی پر معافی مانگی اور اس
نے یہ معافی قبول نہ کی تو اس پر ایسا ہی گناہ ہوگا جیسے ٹیکس کی وصولی میں خیانت
یا زیادتی کرنے والے پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ،
4/668، حدیث: 3718)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسی بات سے اجتناب کرو جس پر معذرت کرنا پڑے۔(مسند امام احمد، 9/130،
حدیث: 23557)
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہ اگر میں اپنی
بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھوں تو سیدھی تلوار سے اس کی گردن مار دوں پھر یہ
بات آقا کریم ﷺ تک پہنچی توآپ نے فرمایا کہ کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے؟ بلا
شبہ میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہےاور اللہ
پاک نے غیرت ہی کی وجہ سے خواہش کو حرام کیا ہے چاہے تو ظاہر ہو یا چھپ کر اور
معذرت اللہ رب العزت سے زیادہ کسی کو پسند نہیں اور اس لیے اس نے بشارت دینے
والےاورڈرانےوالے بھیجے اور تعریف الله سے زیادہ کسی کو پسند نہیں اسی وجہ سے اس
نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ (بخاری، 4/545، حدیث: 7416)
پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے کہ معذرت کرنے کی
وجہ سے رسول الله ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمادی کہ وہ ایسی بات سے بچے رہیں کہ اسے معذرت
کرنی پڑے آج اگر ہم کسی کو جان بوجھ کر تنگ کرتے ہیں کسی سے بد تمیزی کرتے ہیں یا
کسی بڑے کا کہا نہ مان کر گناہ کرتے ہیں اور اوپر اوپر سے مطلب ظاہراًہم اسے ایک معذرت
یعنی (Sorry)
کہ دیتے ہیں لیکن آپ نے یا میں نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ جس کو ہم نے تنگ کیا
ہے یا برا بھلا کہا ہے یا جس سے بد تمیزی کی ہے اسے کتنا برا لگا ہو گا کتنی دل
آزاری ہوئی ہوگی۔
یاد رکھو! بروز قیامت اس کے بارے میں بھی پوچھا
جائے گا اور اللہ کریم سب سے زیادہ بخشنے والا مہربان ہے اور اسے معافی سب سے
زیادہ پسند ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ معافی مانگ لیں اور سچے دل سے تو بہ کریں کہ
آئندہ ایسا گناہ نہ ہوگا ان شاء اللہ اور معافی دینا تو بہت پسند یدہ امر ہے۔ ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم پاک دامنی اختیار کرو تا کہ تمہاری
عورتیں بھی پاک دامن ہوں تم اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو تا کہ تمہاری
اولاد بھی تمہارے ساتھ نیک برتاؤ کرے اور جو اپنی کسی غلطی پر اپنے مسلمان بھائی
سے معافی مانگے اور وہ اسکی معافی کو قبول نہ کرے تو وہ میرے حوض کوثر پر نہیں آئے
گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
آقا کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنی زبان کو لوگوں کی
پردہ دری سے روکے رکھا الله قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جس نے اپنے
غصے پر قابو پایا الله کاک عذاب کو اس سے روک دے گا اور جو اللہ رب العزت کے حضور
اپنی خطاؤں پرمعافی کا طلبگار ہو اللہ پاک اسکی معافی کو قبول فرمائے گا۔ (مراۃ
المناجیح، 6/667)
معذرت انگریزیApology
چاہنا کسی حرکت بات یا صورتحال پر تاسف اور افسوس کا اظہار ہے معذرت کبھی خود کی
وجہ سے رونما کیفیت پر ہو سکتی ہے اور کبھی اپنے متعلقین کی وجہ سے بھی ممکن ہے۔
معذرت اور معافی میں فرق: معذرت
لفظ کی اصل عربی زبان ہے جس کو بغور دیکھا جائے تو اس میں ایک لفظ چھپا ہوا ہے
عذر۔ اس لفظ سے معذرت اور معافی میں فرق واضح ہو جاتا ہے دراصل معذرت کا مطلب بھی
معافی ہی ہوتا ہے تاہم معذرت کرتے ہوئے ساتھ کوئی عذر بھی بیان کر دیا جاتا ہے
جبکہ معافی میں غلطی کے لیے کوئی عذر بیان نہیں کیا جاتا بس غلطی کو تسلیم کرتے
ہوئے بغیر کسی عذر کو بیان کیے معافی مانگ لی جاتی ہے۔ البتہ غیر مشروط طور پر
اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے جو معذرت کی جائے یا معافی مانگی جائے، وہ قابل
تحسین ہے اور ایسے شخص کی معذرت قبول کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ امر ہے۔
آئیے معاف کرنے کی فضیلت پر چند آیت کریمہ جان لیتی
ہیں:
1۔ وَ الْكٰظِمِیْنَ
الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ
الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4،
آل عمران: 134) ترجمہ کنز الایمان: اور غصّہ پینے والے
او ر لوگو ں سے درگزرکرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔
2۔ اسی طرح پارہ18 سورۂ نور کی آیت نمبر22 میں
ارشاد ہوتا ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ
لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18،
النور:22) ترجمہ کنز
الایمان: اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ
تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
معلوم ہوا
! لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا ربّ کریم کو بہت پسند ہے۔یاد رہے! کسی مسلمان سے
غلطی ہوجانے پر اسے معاف کرنااگرچہ نفس پر نہایت دشوار ہے،لیکن اگر ہم عفو و درگزر
کے فضائل کو پیش نظر رکھیں گے تواللہ پاک کی طرف سے انعام و اکرام کے حقدار بھی
قرار پائیں گے۔ ان شاء اللہ
آئیے!اس بارے میں 6احادیث مبارکہ سنئےاورلوگوں
کومعاف کرنے کا جذبہ پیداکرنے کی کوشش کیجئے۔
1۔ حساب میں آسانی کے تین اسباب:
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی
اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی
رحمت سے جنّت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول
اللہﷺ ! وہ کون سی باتیں ہیں ؟فرمایا: {1}جو
تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کر واور{2} جو
تم سے قطع تعلّق کرے (یعنی تعلّق توڑے) تم اس سے ملاپ کرو اور {3}جو تم پر ظلم کرے تم اس کومعاف کردو۔ (معجم
ا وسط، 4/18، حدیث: 5064)
2۔ معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے: خاتم
المرسلین ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی
کاقصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے ) کی عزّت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کے
لیے تواضع (یعنی عاجزی) کرے، اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1397، حدیث: 2588)
3۔ معزز کون؟ حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے عرض کی: اے ربّ اعلیٰ! تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزّت والا ہے؟
فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کردے۔ (شعب الایمان، 6/319، حدیث:
8327)
4۔ فرمایا: جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے
گاقیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ،3/36، حديث:2199)
5۔ معاف کرنے والوں کی بے حساب مغفرت: حضرت
انس سے مروی ہے کہ حضورسرکار مدینہﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز اعلان کیا جائے
گا: جس کا اجر اللہ کے ذمّۂ کرم پر ہے، وہ اٹھے اورجنّت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا
جائے گا: کس کے لیے اجر ہے؟ وہ منادی (یعنی اعلان کرنے والا ) کہے گا: ان لوگوں کے
لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔ تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنّت میں
داخل ہوجائیں گے۔ (معجم ا وسط، 1/542، حدیث: 1998)
6–ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوااور عرض کی:
یارسول اللّٰہﷺ!ہم خادم کو کتنی بارمعاف کریں؟آپ ﷺخاموش رہے۔اس نے پھر وہی سوال
دہرایا،آپﷺ پھر خاموش رہے،جب تیسری بارسوال کیا تو ارشاد فرمایا:روزانہ ستّر(70)
بار۔(ترمذی، 3/381،حدیث:1956)
حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ
اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: عربی میں ستّر (70) (Seventy)کا
لفظ بیان زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو، یہ اس صورت میں
ہو کہ غلام سے خطاءًغلطی ہوجاتی ہے، خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی
ہو،شریعت کا یاقومی و ملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصورمعاف نہیں کیے جاتے۔ (مرآۃ
المناجیح،5/170)
پیاری
اسلامی بہنو ! آپ نے سنا کہ لوگوں کو معاف کرنا کس قدر بہترین عمل ہے جس کی دنیا
میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہی ہیں مگر آخرت میں بھی ان شاء اللہ اس کی برکت سے جنّت
کی خوشخبری سے نوازا جائے گا۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و قدرت کے
باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی نفسانی ضد کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ معاف کرکے
ثواب کا خزانہ پاتے ہیں۔مگر افسوس!آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی پہنچادے
تو ہم عفو و درگزر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور اس سے بدلہ لینے کی کوشش
کرتے ہیں حالانکہ ہمیں حضور پاکﷺ کی سیرت طیبہ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے کہ آپ
کس قدر نرم مزاج تھے۔ آئیے آپ کے معاف کرنے کے متعلق ایک واقعہ سن لیتی ہیں:
قاتلانہ حملے کی کوشش کرنے والے کو معاف
فرما دیا:
دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 862 صفحات پر مشتمل کتاب، سیرت
مصطفیٰ ﷺ صفحہ 604 تا605پر ہے:ایک سفر میں نبی معظّمﷺ آرام فرمارہے تھے کہ غورث بن
حارث نے آپﷺ کو شہید کرنے کے ارادے سے آپﷺ کی تلوار لے کر نیام سے کھینچ لی، جب
سرکار نامدارﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو غورث کہنے لگا: اے محمد (ﷺ) ! اب آپﷺ کو مجھ
سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ۔
نبوّت کی ہیبت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر
پڑی اور سرکار عالی وقارﷺ نے تلوار ہاتھ مبارک میں لے کر فرمایا: اب تمہیں میرے
ہاتھ سے کون بچانے والا ہے؟ غورث گڑگڑا کر کہنے لگا: آپﷺ ہی میری جان بچائیے۔ رحمت
عالمﷺ نے اس کو چھوڑ دیااور معاف فرما دیا۔ چنانچہ غورث اپنی قوم میں آ کر کہنے
لگا کہ اے لوگو! میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا کے تمام انسانوں میں سب
سے بہتر ہے۔ (الشفا، 1/106)
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو
قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر
دعائیں دی
پیاری اسلامی بہنو! ہمیں چاہیے کہ پیارے آقاﷺ کے
اسوہ کی پیروی کریں اور آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کو معاف کرنے کے جذبے
کو فروغ دیں۔ اللہ پاک ہمیں عفو و درگزر سے کام لینے اور معاف کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین یارب العالمین