معذرت کے معنی ہے عذر قبول کرنا جو لوگ غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے لوگ اللہ کو بہت پسند ہوتے ہیں۔ معاف کرنا اتنا بڑا عمل ہے افسوس ہم نے اس کو اپنی زندگیوں سے کیوں نکال دیا ہے۔

نبی کریم ﷺ کے معاف کرنے کا واقعہ: مکہ والوں نے چاند کے دو ٹکڑے دیکھے تو کہا محمد ﷺ نے چاند پر جادو کر دیا۔ پتھروں کو کلمہ پڑھتے دیکھا تو کہا اس پر جادو کر دیا۔ مکہ والوں نے جنگ بدر میں فرشتے دیکھے لیکن کلمہ نہیں پڑھا۔جنگ خندق میں شکست کھائی لیکن ایمان نہ لائے۔لیکن جب آپ ﷺ نے مکہ میں بیت اللہ کا دروازہ پکڑ کر کہا کہ جاو میں نے تم سب کو معاف کر دیا تو ان سب نے کلمہ پڑھ لیا اور ایمان لے آئے۔

معاف کرنے والوں کی فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

1:رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:میں نے جنت میں اونچے اور شاندار محل دیکھے،جبریل سے پوچھا یہ کن لوگوں کے لیے ہیں؟ جبریل نے کہا یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ (عوارف المعارف، ص 407)

2: جس نے اپنے غصے پر قابو پایا،اللہ تعالیٰ اس سے اپنا عذاب روک لے گا۔جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی،اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ ڈال دے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ سے معذرت کی،وہ اس کا عذر قبول کرے گا۔(مراۃ المناجیح، 6/667)

3: جو شخص غصے کو پی جائے، جب کہ وہ بدلہ لینے پر قادر ہو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اسے تمام مخلوقات کے سامنے بلائے گا اور اسے کہے گا کہ وہ جس حورعین کو چاہے، اپنے لیے پسند کر لے۔ (ابو داود، 4/325، حدیث: 4777)

معذرت قبول نہ کرنا گناہ ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی سے معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا ٹیکس وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کسی شخص نے اپنے کسی مسلمان بھائی سے اپنی غلطی پر معافی مانگی اور اس نے اس کی معافی قبول نہ کی تو اس کو حوض کوثر پر آنا نصیب نہ ہوگا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

معذرت اور معاف کرنے کی عادت ڈالیے۔ اے اللہ! اگر میں نے کسی کا دل دکھایا ہو یا کسی کو تکلیف پہنچائی ہو تو مجھے اخلاقی جرات اور حوصلہ دے کہ میں اس سے معذرت کر سکوں۔اور اگر کسی نے مجھے تکلیف اور دکھ پہنچایا ہو تو مجھے توفیق دے میں اسے معاف کر سکوں۔

بندوں کے حقوق کا معاملہ یقیناً بہت نازک ہے، ہمیں اس بارے میں ہر وقت محتاط رہنا چاہیے۔اگر کبھی جانے انجانے میں کسی مسلمان کا حق ضائع ہوجائے تو فوراً توبہ کرتے ہوۓ صاحب حق سے معافی بھی مانگنی چاہیے۔کیونکہ بندوں کے حقوق کا ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور بندوں کے حقوق واجبہ ادا نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے جو صرف توبہ کرنے سے معاف نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ضروری ہے کہ توبہ کے ساتھ ساتھ یا تو حقوق ادا کر دے یا حقوق والوں سے معاف کروالے، چنانچہ

مکتبۃ المدینہ کی کتاب احیاء العلوم جلد 4 صفحہ نمبر 115 پر لکھا ہے:یاد رہے! گناہ کو ذکر کرنا اور دوسروں کو اس پر آگاہ کرنا ایک نیا گناہ ہے جس کی الگ معافی مانگنا پڑے گی۔ البتہ! جس کا حق ضائع کیا ہے اس کے سامنے بیان کرے لیکن اگر وہ معاف کرنے پر راضی نہ ہوا تو گناہ اس کے ذمّہ باقی رہے گا کیونکہ معاف نہ کرنا اس کا حق ہے۔یاد رہے!جس سے معافی مانگی جائے اسے چاہیے کہ معاف کردے،حدیث پاک میں ہے: جس کے پاس اس کا بھائی معذرت کرنے کے لئے آیا تواسے چاہیے کہ اپنے بھائی کو معاف کردے، خواہ وہ جھوٹاہو یا سچا۔جو معاف نہیں کرے گا، حوض کوثرپر نہ آسکے گا۔ (مستدرک، 5/213، حدیث:7340)

اسے(یعنی معافی مانگنے والے کو)چاہئےکہ اس سے نرمی کا سلوک کرے،اس کے کام کاج اور ضروریات میں مدد کرے اور اس سے محبّت اور شفقت کا اظہار کرے تاکہ اس کا دل اس کی طرف مائل ہو کہ (مشہور مقولہ ہے) انسان احسان کا غلام ہے۔

جو شخص برائی کے سبب دور ہوتا ہے وہ نیکی کے ذریعے مائل ہوجاتا ہے۔ تو جب محبّت وشفقت کی کثرت ہوگی اور اس وجہ سے اس کا دل خوش ہوگا تو وہ خود معاف کرنے پر تیار ہوجائے گا لیکن اگر وہ اس کے باوجود معاف نہ کرنے پر اصرار کرے تو ممکن ہے کہ اس سے نرمی وشفقت کا سلوک اور عذر پیش کرنا مجرم کی ان نیکیوں میں شمار ہوجائے جن کے ذریعے قیامت کے دن اس کی زیادتیوں کا بدلہ چکایا جائے۔بہرحال اسے چاہئے کہ محبّت وشفقت کے ذریعے اسے خوش کرنے کی کوشش اسی طرح کرتا رہے جس طرح اسے تکلیف پہنچانے میں کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ ایک عمل دوسرے کے برابر یا اس سے زائد ہوجائے تو قیامت کے دن اللہ پاک کے حکم سے بدلے میں اس کا یہ عمل قبول کرلیا جائے گا جیسے کوئی شخص دنیا میں کسی کا مال ہلاک کردے پھر اس کی مثل لائے لیکن مال کا مالک اسے قبول کرنے یا معاف کرنے سے انکار کردے تو حاکم اس مال پر قبضہ کرنے کا فیصلہ دے گا چاہے وہ قبول کرے یا نہ کرے۔ اسی طرح میدان قیامت میں سب سے بڑا حاکم اور سب سے زیادہ انصاف کرنے والا اللہ کریم حکم جاری فرمائے گا۔

مکتبۃ المدینہ کی کتاب جنّتی زیورکے صفحہ نمبر103 اور 104پر لکھا ہے:اگر کسی کا تمہارے اوپر کوئی حق تھا اور تم اس کو کسی وجہ سے ادا نہیں کر سکے تو اگر وہ حق ادا کرنے کے قابل کوئی چیز ہو مثلاً کسی کا تمہارے اوپر قرض رہ گیا تھا تو اس کو ادا کرنے کی تین (3) صورتیں ہیں یا تو خود حق والے کو اس کاحق دے دویعنی جس سے قرض لیا تھا اسی کو قرض ادا کردویا اس سے قرض معاف کرالو۔ اگر وہ شخص مر گیا ہو تو اس کے وارثوں کو اس کا حق یعنی قرض ادا کر دو۔ اگر وہ حق ادا کرنے کی چیز نہ ہو بلکہ معاف کرانے کے قابل ہو مثلاًکسی کی غیبت کی ہو یا کسی پر تہمت لگائی ہو تو ضروری ہے کہ اس شخص سے اس کو معاف کرالو۔ اور اگر کسی وجہ سے حق داروں سے نہ ان کے حقوق کو معاف کراسکا،نہ ادا کرسکا،مثلاً جن کا حق تھا وہ مرچکے ہوں تو ان لوگوں کے لئے ہمیشہ بخشش کی دعاکرتا رہے اور اﷲ پاک سے توبہ و استغفار کرتا رہے تو امید ہے کہ قیامت کے دن اﷲکریم حق والوں کو بہت زیادہ اجرو ثواب دے کر اس بات کے لئے راضی کردے گا کہ وہ اپنے حقوق کو معاف کردیں۔ اگر تمہارا کوئی حق دوسروں پر ہو اور اس حق کے ملنے کی امید ہو تو نرمی کے ساتھ تقاضا کرتے رہو۔ اگر وہ شخص مرگیا ہو تو بہتر یہی ہے کہ تم اپنے حق کو معاف کردو،ان شاء اللہ قیامت کے دن اس کے بدلے میں بہت بڑا اور بہت زیادہ اجرو ثواب ملے گا۔

معذرت عربی لفظ ہے اس کے معنی ٰہیں: الزام سے بری ہونا، عذر قبول کرنا۔ بندوں کے حقوق کا معاملہ بہت نازک ہے اس معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ہمیں اس بارے میں ہروقت محتاط رہنا چاہیے اگر جانے انجانے میں بھی کسی کی حق تلفی ہوجائے تو ہمیں فوراً توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ صاحب حق سے معافی مانگ لینی چاہیے حقوق العباد کا ادا کرنا ہرایک مسلمان پر فرض ہے اور بندوں کے حقوق ادا نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے جو صرف توبہ کرنے سے معاف نہ ہوگا بلکہ توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ حقوق بھی ادا کیے جائیں یا حق والوں سے معاف کروا لیے جائیں۔

معذرت قبول نہ کرنے کانقصان: معذرت قبول نہ کرنے سے دل میں بغض ونفرت پیدا ہوتی ہے اور بندہ اپنی حق تلفی کو بھول نہیں پاتا جس کی وجہ سے بے چین رہتا ہے۔

جوکوئی اپنے مسلمان بھائی سے معذرت کرے اور وہ اس کی معذرت قبول نہ کرے تو اسے حوض کوثر پر حاضر ہونا نصیب نہ ہوگا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا(۱۴۹) (پ 6، النساء: 149) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم کوئی بھلائی اعلانیہ کرو یا چھپ کر یا کسی برائی سے درگزر تو بے شک اللہ معاف کرنے والا قدرت والا ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: ارشاد فرمایا کہ اگر تم کوئی نیک کام اعلانیہ کرو یا چھپ کر یا کسی کی برائی سے درگزر کرو تو یہ افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سزا دینے پر قادر ہونے کے باوجود اپنے بندوں کے گناہوں سے درگزر کرتا اور انہیں معاف فرماتا ہے لہذا تم بھی اپنے اوپر ظلم وستم کرنے والوں کو معاف کردواور لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرو۔ (تفسیر سمرقندی، 1 / 401)

معاف کرنے کی فضیلت: اس آیت سے معلوم ہوا کہ ظالم سے بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے لیکن ظالم سے بدلہ لینے پرقادرہونے کے باوجود اس کے ظلم پر صبر کرنا اور اسے معاف کردینا بہتر اور اجرو ثواب کا باعث ہے ۔

جو معاف نہیں کرتا اسے معاف نہیں کیا جائے گا: حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا اور جو معاف نہیں کرتا اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ (مسند امام احمد، 7/71، حدیث:19264)

اللہ ہمیں دوسروں کو معاف کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔

لغزش اور خطا کی بنا پر دوسروں سے معذرت چاہنا اور دوسروں کی معذرت خواہی کو قبول کرنا مکارم اخلاق اور کمال کی نشانی ہے۔ اگر ہمیں یہ بھی معلوم ہو کہ سامنے والا جو عذر بیان کررہا ہے وہ غلط ہے تب بھی تاکید کی گئی ہے کہ ہم اس کی معذرت قبول کریں۔ اس لئے کہ یہ برتاؤ، عزت و آبرو کا محافظ ہے اور مزید پردہ دری اور بے آبروئی سے روکتا ہے اور آپسی میل محبت اور دوستی کا سبب بنتا ہے۔

معذرت قبول نہ کرنے پر احادیث مبارکہ:

1) جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے معذرت کرے اور وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو اسے حوضِ کوثر پر حاضر ہونا نصیب نہ ہوگا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

2) جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے سامنے عذر پیش کرے اور وہ اسے معذور نہ سمجھے یا وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو اس پر ٹیکس وصول کرنے والے کی مثل گناہ ہوتا ہے۔(ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)

3) کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ہاں اگر آپ اس کو بہتر سمجھیں تو ضرور بتائیں نبی ﷺ نے فرمایا: تم میں برا شخص وہ ہے جو تنہا کسی منزل پر اترے اپنے غلام کو کوڑے مارے اور اپنی عطا و بخشش سے محروم رکھے پھر فرمایا کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہاں اگر آپ اس کو بہتر سمجھیں حضور ﷺ نے فرمایا وہ شخص جو قصور کرنے والے کے عذر کو تسلیم نہ کرے معذرت کو قبول نہ کرے اور خطا کو معاف نہ کرے پھر فرمایا کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ بتائیں اگر آپ بہتر سمجھیں نبی ﷺ نے فرمایا وہ شخص کہ جس سے خیر و بھلائی کی توقع نہ کی جائے اور اس کی فتنہ انگیزیوں سے امن ملتانہ ہو۔

4) جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہوکر آئے تو اس کا عذر قبول کرے، خواہ صحیح ہو یا غلط۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ آئے۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں دوسروں کے عذر قبول کرنے اور معاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے معذرت کرے اور وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو، اسے حوض کوثر پر حاضرہونا نصیب نہ ہو گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

معافی مانگنے والے کے اور جس سے معافی طلب کی جارہی ہو، ان کے حالات مختلف ہیں اور حالات کے اعتبار سے حکم بھی مختلف ہے۔ جس سے معافی طلب کی جارہی ہو، اگر اسے اندازہ ہو کہ معافی مانگنے والے کو معاف کردیا تو وہ دوبارہ زیادتی کرے گا اور اس کے اس عمل کی حوصلہ افزائی ہوگی، تو ایسی صورت میں اس کے فسق یا جہالت کی اصلاح کی نیت سے اسے معاف نہ کرنا اور جائز بدلہ لینا یا قیامت کے دن کے بدلہ سے ڈرانا صرف جائز ہے۔ تاہم ایسے شخص کے دل میں یہ جذبہ ہونا بہتر ہے کہ جب اصلاح ہوجائے تو اسے دل سے معاف بھی کردے۔ نیز اگر یہ جذبہ بھی ہو کہ اصلاح نہ ہو، تب بھی دل سے معاف کردے؛ تاکہ قیامت میں مسلمان بھائی کی پکڑ نہ ہو، تو یہ اعلیٰ ظرفی کی بات ہے، اگرچہ اس پر لازم نہیں۔

اسی طرح معافی مانگنے والا اگر اپنی زیادتی پر نادم (پشیمان و پریشان) نہ ہو، بلکہ رسمی معافی مانگ رہا ہو اور صاحب حق اسے معاف نہ کرے تو اسے قیامت کے دن کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے۔ البتہ اگر معافی مانگنے والا نادم ہو کر معافی مانگ رہا ہو، لیکن صاحب حق اسے معاف نہ کر رہا ہو، تب بھی معافی مانگنے والے کو چاہیے کہ قیامت کے دن کی پکڑ سے خوف زدہ ہو کر صاحب حق کو منانے کی کوشش کرتا رہے۔ اور اگر وہ نہ مانے تو اللہ کے فضل سے امید ہے کہ اس کی دلی ندامت کی وجہ سے قیامت کے دن اس کی پکڑ نہ ہوگی۔ اور جس سے معافی مانگی جا رہی ہو، اگر اس کے سامنے معافی مانگنے والے کا عذر واضح ہو اور معاف کرنے میں کوئی شرعی یا طبعی رکاوٹ بھی نہ ہو، نیز اس کا کوئی نقصان بھی نہ ہو تو ایسے شخص کو معاف کردینا چاہیے۔

اگر معافی چاہنے والے کو معاف نہ کرے تو یہ معاف نہ کرنے والا خاطی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی سے معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا محصول ( ٹیکس ) وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)

آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے سامنے عذر پیش کرے اور وہ اسے معذور نہ سمجھے یا وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو اس پر ٹیکس وصول کرنے والے کی مثل گناہ ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)

اللہ ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنے اور معذرت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

واضح رہے کہ معافی مانگنے والے کے اور جس سے معافی طلب کی جا رہی ہو، ان کے حالات مختلف ہیں اور حالات کے اعتبار سے حکم بھی مختلف ہیں۔ جس سے معافی طلب کی جا رہی ہو اگر اسے اندازہ ہو کہ معافی مانگنے والے کو معاف کر دیا تو وہ دوبارہ زیادتی کرے گا اور اس کے اس عمل کی حوصلہ افزائی ہو گی، تو ایسی صورت میں اس کے فسق یا جہالت کی اصلاح کی نیت سے اسے معاف نہ کرنا اور جائز بدلہ لینا یا قیامت کے دن کے بدلہ سے ڈرانا جائز ہے۔ تاہم ایسے شخص کے دل میں یہ جذبہ ہونا بہتر ہے کہ جب اصلاح ہو جائے تو اسے دل سے معاف بھی کر دے۔ نیز اگر یہ جذبہ بھی ہو کہ اصلاح نہ ہو تب بھی دل سےمعاف کر دے، تاہم قیامت میں مسلمان بھائی کی پکڑ نہ ہو، تو یہ اعلی ظرفی کی بات ہے، اگرچہ اس پر لازم نہیں۔

اگر معافی چاہنے والے کو معاف نہ کرے، تو یہ معاف نہ کرنے والا خاطی ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنے بھائی سے معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا محصول وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)

مزید حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی کے پاس اپنی غلطی پر معذرت کرنے کے لئے آئے تو اسے قبول کرنا چاہئے، خواہ وہ سچا ہو یا جھوٹا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو میرے پاس حوض کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

سب سے زیادہ ناقص العقل وہ ہے جو غلطی پر معذرت کرنے والوں کو معاف نہ کرے۔ ایک اور حدیث مبارک ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے پاس اس کا مسلمان بھائی معذرت لائے، واجب ہے کہ قبول کر لے ورنہ حوض کوثر پر آنا نہ ملے گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

معاف کر دینا اعلی ظرفی ہے، ہمیں بھی چاہیے کہ جب کوئی بھی کسی معاملے میں بھی ہم سے معذرت خواہ ہو تو ان کا مان رکھتے ہوئے ان کی معذرت کو قبول کر لیا جائے اور اپنے محشر کے دن کو یاد کیا جائے کہ تب ہمیں بھی اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا پڑی تو ہمارا حال کیا ہوگا۔

اللہ پاک ہم سب کے حال پر رحم فرمائے۔ آمین

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان ہونے کے ناطے ہم سب سے کچھ نہ کچھ گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ زیادہ خطرناک گناہ حقوق العباد کے معاملے میں ہیں۔ انسانوں پر رحم کرنے کی تاکید میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم ان کو معاف کر دیں تاکہ اللہ بھی ہمیں معاف کر دے۔ سوشل میڈیا یعنی فیس بک وغیرہ زندگی سے متعلقہ و غیر متعلقہ جن کو آپ یاد رکھے ہوئے ہیں یا بھول چکے ہیں آئیے ان سب کو ابھی آج ہی معاف کر دیتے ہیں۔ یہ رحم کا سب سے بڑا درجہ ہوگا۔ اللہ سے مکمل امید ہے کہ جیسے ہم تمام لوگوں کو معاف کر رہے ہیں اللہ بھی ہمارے گناہ معاف فرما دےگا۔ ان شاء اللہ تو آؤ کہہ دو کہ میں نے ان سب لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے کبھی میرا دل دکھایا ہو، تنگ کیا ہو، اذیت دی ہو، ظلم کیا ہو، آنکھوں میں آنسو لانے کا سبب بنے ہوں، کہہ دو کہ میں نے سب کو معاف کر دیا ان شاء اللہ آپ کے معاف کرنے کی وجہ سے بہت سارے لوگ جہنم کے عذاب سے بچ جائیں گے۔

معذرت قبول نہ کرنا گناہ ہے حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنے بھائی سے معذرت کرے اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا محصول یعنی ٹیکس وصول کرنے والے کو اس کے خطا پر ہوتا ہے۔(ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)

معذرت قبول نہ کرنے والا حوض کوثر تک پہنچ نہ پائے گا: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی کے پاس اپنی غلطی پر معذرت کے لیے آئے تو اسے قبول کرنا چاہیے خواہ وہ سچا ہو یا جھوٹا اگر وہ ایسا نہیں کرے تو میرے پاس حوض کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہیں کرتا میں اس کے لیے اعلی جنت میں گھر کا ضامن ہوں۔ (ابو داود، 4/332، حدیث: 4800)

اپنے بچے کو معذرت کہنا سکھائیے:

1۔ بہن بھائی سے لڑائی کی صورت میں معذرت کی جائے۔

2۔ کھیل کے دوران دوسروں کو دھکا لگنے پر معذرت کیجئے۔

3۔ دوسرے بچوں کی چیزوں کے نقصان پر معذرت کیجئے۔

4۔ اسکول میں ہم جماعت کو تکلیف پہنچنے پر معذرت کیجئے۔

5۔ بڑے اپنی غلطی پر بچوں سے معذرت کریں تاکہ بچے بھی معذرت کرنے سے نہ ہچکچائیں۔

مسلمان کی معذرت قبول کرنا واجب ہے: رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے پاس اس کا مسلمان بھائی معذرت لائے واجب ہے کہ قبول کر لے ورنہ حوض کوثر پر آنا نہ ملے گا۔(معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معذرت کرنا: ایک مرتبہ بلال رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کوئی بات چلی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی سخت لفظ استعمال کر دیا جب عمر رضی اللہ عنہ نے سخت لفظ استعمال کیا تو بلال رضی اللہ عنہ کا دل جیسے ایک دم بجھ گیا اور وہ خاموش ہو کر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تھے جیسے ہی وہ اٹھ کر گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محسوس کر لیا کہ انہیں میری اس بات سے صدمہ پہنچا ہے چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ اسی وقت اٹھے بلال رضی اللہ عنہ کو آ کر معذرت کی۔

معافی کا مطلب گلے لگانا نہیں بلکہ یہ عہد ہے کہ جو اذیت اس نے مجھے دی وہ میں اس کو نہیں دینی۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا اے اللہ کے رسول! ہم خادم کو کس قدر معاف کریں؟ آپ خاموش رہے اس نے پھر سوال کیا تو آپ خاموش رہے پھر جب تیسری بار پوچھا تو آپ نے فرمایا: اسے ہر روز 70 بار معاف کرو۔ (ترمذی، 3/381، حدیث:1956)

آخر میں اللہ سے دعا ہے اللہ پاک ہمیں معذرت کرنے والا بنا دے اور معاف کرنے والا بنا دے۔ آمین

ہمارے معاشرے میں جہاں دوسری بے انتہا برائیاں ہیں وہاں ایک برائی معذرت قبول نہ کرنا بھی ہے۔ دنیا میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو اپنے کسی عزیز کی غلطی پر معذرت قبول نہیں کرتے اور رشتہ توڑ لیتے ہیں۔

معذرت کیا ہوتی ہے؟ معذرت عربی زبان کا لفظ ہے جو عذر سے بنا ہے۔ یعنی اگر کسی کا کوئی عذر ہے تو اسے قبول کرنا اور اسے معاف کرنا۔ اگر تو کوئی شخص بار بار غلطی کرتا ہے اور بعد میں آ کر معذرت کرتا ہے تو ایسے شخص کا مسئلہ الگ ہے۔ یہاں بات ہو رہی ہے کسی عام شخص کی جس کی معذرت ہم قبول نہیں کرتے۔ ہمیں لگتا ہے یہ چیز ہماری عزت کے خلاف ہے کہ ہم معذرت قبول کریں مگر کیا واقعی میں ایسا ہے؟ حدیث مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے:

عزت والا کون ہے؟ روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله ﷺ نے کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے رب تیرے نزدیک تیرے بندوں سے کون زیادہ عزت والا ہے؟ فرمایا کہ جب قدرت پائے بخش دے۔ (شعب الایمان، 6/319، حدیث:8327 )

کیا رب کے نزدیک عزت والا ہونا ہمارے لیے ضروری نہیں؟ معذرت قبول کرنا سنت الہیہ ہے۔ جب ہم اللہ پاک سے معذرت کرتے ہیں تو وہ قبول فرماتا ہے۔

عذر کو قبول کر لے گا: روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنی زبان کی حفاظت کرے الله تعالیٰ اس کے عیب چھپالے گا اور جو اپنا غصہ روکے الله تعالیٰ اس سے قیامت کے دن اپنا عذاب روک لے گا اور جو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں معذرت کرے الله تعالیٰ اس کے عذر قبول کرلے گا۔ (مراۃ المناجیح، 6/667)

کیا ہم سنت الہیہ پر عمل نہیں کریں گے؟ ہم میں سے ہر شخص چاہتا ہے کے ہم باعزت ہو۔ اور با عزت شخص کون ہوتا ہے؟ جو عاجزی کرنے والا ہو۔ عاجزی میں معذرت قبول کرنا بھی شامل ہے۔

اللہ اسے اونچا کر دیتا ہے: روایت ہے حضرت عمر رضی الله عنہ سے آپ نے منبر پر فرمایا: اے لوگو! انکساری اختیار کرو کیونکہ میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے سنا کہ جو الله تعالیٰ کے لیے انکسار و عجز کرتا ہے الله اسے اونچا کردیتاہے تو وہ اپنے دل کا چھوٹا ہوتا ہے اور لوگوں کی نگاہ میں بڑا اور جوغرورکرتا ہے الله تعالیٰ اسے نیچا کردیتا ہے تو وہ لوگوں کی نگاہ میں چھوٹا ہوتا ہے اور اپنے دل میں بڑا حتی کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور سؤر سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے۔ (شعب الایمان، 6/276، حدیث: 8140)

رب کے نزدیک سؤر جیسا ذلیل ہونا کوئی پسند کر سکتا ہے؟ اللہ پاک ہمیں عاجزی بالاخلاص کرنے والا بنائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ خاتم النبیینﷺ