معذرت قبول نہ کرنا از بنت محمد اصغر
مغل،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی اپنے مسلمان
بھائی سے معذرت کرے اور وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو، اسے حوض کوثر پر حاضرہونا
نصیب نہ ہو گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
معافی مانگنے والے کے اور جس سے معافی طلب کی جارہی
ہو، ان کے حالات مختلف ہیں اور حالات کے اعتبار سے حکم بھی مختلف ہے۔ جس سے معافی
طلب کی جارہی ہو، اگر اسے اندازہ ہو کہ معافی مانگنے والے کو معاف کردیا تو وہ
دوبارہ زیادتی کرے گا اور اس کے اس عمل کی حوصلہ افزائی ہوگی، تو ایسی صورت میں اس
کے فسق یا جہالت کی اصلاح کی نیت سے اسے معاف نہ کرنا اور جائز بدلہ لینا یا قیامت
کے دن کے بدلہ سے ڈرانا صرف جائز ہے۔ تاہم ایسے شخص کے دل میں یہ جذبہ ہونا بہتر
ہے کہ جب اصلاح ہوجائے تو اسے دل سے معاف بھی کردے۔ نیز اگر یہ جذبہ بھی ہو کہ
اصلاح نہ ہو، تب بھی دل سے معاف کردے؛ تاکہ قیامت میں مسلمان بھائی کی پکڑ نہ ہو،
تو یہ اعلیٰ ظرفی کی بات ہے، اگرچہ اس پر لازم نہیں۔
اسی طرح معافی مانگنے والا اگر اپنی زیادتی پر نادم
(پشیمان و پریشان) نہ ہو، بلکہ رسمی معافی مانگ رہا ہو اور صاحب حق اسے معاف نہ
کرے تو اسے قیامت کے دن کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے۔ البتہ اگر معافی مانگنے والا نادم
ہو کر معافی مانگ رہا ہو، لیکن صاحب حق اسے معاف نہ کر رہا ہو، تب بھی معافی
مانگنے والے کو چاہیے کہ قیامت کے دن کی پکڑ سے خوف زدہ ہو کر صاحب حق کو منانے کی
کوشش کرتا رہے۔ اور اگر وہ نہ مانے تو اللہ کے فضل سے امید ہے کہ اس کی دلی ندامت
کی وجہ سے قیامت کے دن اس کی پکڑ نہ ہوگی۔ اور جس سے معافی مانگی جا رہی ہو، اگر
اس کے سامنے معافی مانگنے والے کا عذر واضح ہو اور معاف کرنے میں کوئی شرعی یا
طبعی رکاوٹ بھی نہ ہو، نیز اس کا کوئی نقصان بھی نہ ہو تو ایسے شخص کو معاف کردینا
چاہیے۔
اگر معافی چاہنے والے کو معاف نہ کرے تو یہ معاف نہ
کرنے والا خاطی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی سے معذرت
کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا محصول ( ٹیکس )
وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے
سامنے عذر پیش کرے اور وہ اسے معذور نہ سمجھے یا وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو اس
پر ٹیکس وصول کرنے والے کی مثل گناہ ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)