لغزش اور خطا کی بنا پر دوسروں سے معذرت چاہنا اور
دوسروں کی معذرت خواہی کو قبول کرنا مکارم اخلاق اور کمال کی نشانی ہے۔ اگر ہمیں
یہ بھی معلوم ہو کہ سامنے والا جو عذر بیان کررہا ہے وہ غلط ہے تب بھی تاکید کی
گئی ہے کہ ہم اس کی معذرت قبول کریں۔ اس لئے کہ یہ برتاؤ، عزت و آبرو کا محافظ ہے
اور مزید پردہ دری اور بے آبروئی سے روکتا ہے اور آپسی میل محبت اور دوستی کا سبب
بنتا ہے۔
معذرت قبول نہ کرنے پر احادیث مبارکہ:
1) جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے معذرت کرے اور وہ
اس کا عذر قبول نہ کرے تو اسے حوضِ کوثر پر حاضر ہونا نصیب نہ ہوگا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
2) جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے سامنے عذر پیش
کرے اور وہ اسے معذور نہ سمجھے یا وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو اس پر ٹیکس وصول
کرنے والے کی مثل گناہ ہوتا ہے۔(ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
3) کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں برا شخص کون ہے
صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ہاں اگر آپ اس کو بہتر
سمجھیں تو ضرور بتائیں نبی ﷺ نے فرمایا: تم میں برا شخص وہ ہے جو تنہا کسی منزل پر
اترے اپنے غلام کو کوڑے مارے اور اپنی عطا و بخشش سے محروم رکھے پھر فرمایا کیا
میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہاں
اگر آپ اس کو بہتر سمجھیں حضور ﷺ نے فرمایا وہ شخص جو قصور کرنے والے کے عذر کو
تسلیم نہ کرے معذرت کو قبول نہ کرے اور خطا کو معاف نہ کرے پھر فرمایا کیا میں
تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول
اللہ بتائیں اگر آپ بہتر سمجھیں نبی ﷺ نے فرمایا وہ شخص کہ جس سے خیر و بھلائی کی
توقع نہ کی جائے اور اس کی فتنہ انگیزیوں سے امن ملتانہ ہو۔
4) جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہوکر آئے تو
اس کا عذر قبول کرے، خواہ صحیح ہو یا غلط۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ
آئے۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)