جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان ہونے کے ناطے ہم سب سے کچھ نہ کچھ گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ زیادہ خطرناک گناہ حقوق العباد کے معاملے میں ہیں۔ انسانوں پر رحم کرنے کی تاکید میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم ان کو معاف کر دیں تاکہ اللہ بھی ہمیں معاف کر دے۔ سوشل میڈیا یعنی فیس بک وغیرہ زندگی سے متعلقہ و غیر متعلقہ جن کو آپ یاد رکھے ہوئے ہیں یا بھول چکے ہیں آئیے ان سب کو ابھی آج ہی معاف کر دیتے ہیں۔ یہ رحم کا سب سے بڑا درجہ ہوگا۔ اللہ سے مکمل امید ہے کہ جیسے ہم تمام لوگوں کو معاف کر رہے ہیں اللہ بھی ہمارے گناہ معاف فرما دےگا۔ ان شاء اللہ تو آؤ کہہ دو کہ میں نے ان سب لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے کبھی میرا دل دکھایا ہو، تنگ کیا ہو، اذیت دی ہو، ظلم کیا ہو، آنکھوں میں آنسو لانے کا سبب بنے ہوں، کہہ دو کہ میں نے سب کو معاف کر دیا ان شاء اللہ آپ کے معاف کرنے کی وجہ سے بہت سارے لوگ جہنم کے عذاب سے بچ جائیں گے۔

معذرت قبول نہ کرنا گناہ ہے حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنے بھائی سے معذرت کرے اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا محصول یعنی ٹیکس وصول کرنے والے کو اس کے خطا پر ہوتا ہے۔(ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)

معذرت قبول نہ کرنے والا حوض کوثر تک پہنچ نہ پائے گا: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی کے پاس اپنی غلطی پر معذرت کے لیے آئے تو اسے قبول کرنا چاہیے خواہ وہ سچا ہو یا جھوٹا اگر وہ ایسا نہیں کرے تو میرے پاس حوض کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہیں کرتا میں اس کے لیے اعلی جنت میں گھر کا ضامن ہوں۔ (ابو داود، 4/332، حدیث: 4800)

اپنے بچے کو معذرت کہنا سکھائیے:

1۔ بہن بھائی سے لڑائی کی صورت میں معذرت کی جائے۔

2۔ کھیل کے دوران دوسروں کو دھکا لگنے پر معذرت کیجئے۔

3۔ دوسرے بچوں کی چیزوں کے نقصان پر معذرت کیجئے۔

4۔ اسکول میں ہم جماعت کو تکلیف پہنچنے پر معذرت کیجئے۔

5۔ بڑے اپنی غلطی پر بچوں سے معذرت کریں تاکہ بچے بھی معذرت کرنے سے نہ ہچکچائیں۔

مسلمان کی معذرت قبول کرنا واجب ہے: رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے پاس اس کا مسلمان بھائی معذرت لائے واجب ہے کہ قبول کر لے ورنہ حوض کوثر پر آنا نہ ملے گا۔(معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معذرت کرنا: ایک مرتبہ بلال رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کوئی بات چلی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی سخت لفظ استعمال کر دیا جب عمر رضی اللہ عنہ نے سخت لفظ استعمال کیا تو بلال رضی اللہ عنہ کا دل جیسے ایک دم بجھ گیا اور وہ خاموش ہو کر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تھے جیسے ہی وہ اٹھ کر گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محسوس کر لیا کہ انہیں میری اس بات سے صدمہ پہنچا ہے چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ اسی وقت اٹھے بلال رضی اللہ عنہ کو آ کر معذرت کی۔

معافی کا مطلب گلے لگانا نہیں بلکہ یہ عہد ہے کہ جو اذیت اس نے مجھے دی وہ میں اس کو نہیں دینی۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا اے اللہ کے رسول! ہم خادم کو کس قدر معاف کریں؟ آپ خاموش رہے اس نے پھر سوال کیا تو آپ خاموش رہے پھر جب تیسری بار پوچھا تو آپ نے فرمایا: اسے ہر روز 70 بار معاف کرو۔ (ترمذی، 3/381، حدیث:1956)

آخر میں اللہ سے دعا ہے اللہ پاک ہمیں معذرت کرنے والا بنا دے اور معاف کرنے والا بنا دے۔ آمین