معذرت قبول نہ کرنا از بنت محمد اشفاق
بھٹی،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
واضح رہے کہ معافی مانگنے والے کے اور جس سے معافی
طلب کی جا رہی ہو، ان کے حالات مختلف ہیں اور حالات کے اعتبار سے حکم بھی مختلف
ہیں۔ جس سے معافی طلب کی جا رہی ہو اگر اسے اندازہ ہو کہ معافی مانگنے والے کو
معاف کر دیا تو وہ دوبارہ زیادتی کرے گا اور اس کے اس عمل کی حوصلہ افزائی ہو گی،
تو ایسی صورت میں اس کے فسق یا جہالت کی اصلاح کی نیت سے اسے معاف نہ کرنا اور
جائز بدلہ لینا یا قیامت کے دن کے بدلہ سے ڈرانا جائز ہے۔ تاہم ایسے شخص کے دل میں
یہ جذبہ ہونا بہتر ہے کہ جب اصلاح ہو جائے تو اسے دل سے معاف بھی کر دے۔ نیز اگر
یہ جذبہ بھی ہو کہ اصلاح نہ ہو تب بھی دل سےمعاف کر دے، تاہم قیامت میں مسلمان
بھائی کی پکڑ نہ ہو، تو یہ اعلی ظرفی کی بات ہے، اگرچہ اس پر لازم نہیں۔
اگر معافی چاہنے والے کو معاف نہ کرے، تو یہ معاف
نہ کرنے والا خاطی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنے بھائی سے
معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا محصول وصول
کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
مزید حضور
اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی کے پاس اپنی غلطی پر معذرت کرنے کے لئے آئے تو اسے
قبول کرنا چاہئے، خواہ وہ سچا ہو یا جھوٹا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو میرے پاس
حوض کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
سب سے زیادہ ناقص العقل وہ ہے جو غلطی پر معذرت
کرنے والوں کو معاف نہ کرے۔ ایک اور حدیث مبارک ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد
فرمایا: جس کے پاس اس کا مسلمان بھائی معذرت
لائے، واجب ہے کہ قبول کر لے ورنہ حوض کوثر پر آنا نہ ملے گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
معاف کر دینا اعلی ظرفی ہے، ہمیں بھی چاہیے کہ جب
کوئی بھی کسی معاملے میں بھی ہم سے معذرت خواہ ہو تو ان کا مان رکھتے ہوئے ان کی معذرت
کو قبول کر لیا جائے اور اپنے محشر کے دن کو یاد کیا جائے
کہ تب ہمیں بھی اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا پڑی تو ہمارا حال کیا ہوگا۔