معذرت کے معنی ہے عذر قبول کرنا جو لوگ غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے لوگ اللہ کو بہت پسند ہوتے ہیں۔ معاف کرنا اتنا بڑا عمل ہے افسوس ہم نے اس کو اپنی زندگیوں سے کیوں نکال دیا ہے۔

نبی کریم ﷺ کے معاف کرنے کا واقعہ: مکہ والوں نے چاند کے دو ٹکڑے دیکھے تو کہا محمد ﷺ نے چاند پر جادو کر دیا۔ پتھروں کو کلمہ پڑھتے دیکھا تو کہا اس پر جادو کر دیا۔ مکہ والوں نے جنگ بدر میں فرشتے دیکھے لیکن کلمہ نہیں پڑھا۔جنگ خندق میں شکست کھائی لیکن ایمان نہ لائے۔لیکن جب آپ ﷺ نے مکہ میں بیت اللہ کا دروازہ پکڑ کر کہا کہ جاو میں نے تم سب کو معاف کر دیا تو ان سب نے کلمہ پڑھ لیا اور ایمان لے آئے۔

معاف کرنے والوں کی فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

1:رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:میں نے جنت میں اونچے اور شاندار محل دیکھے،جبریل سے پوچھا یہ کن لوگوں کے لیے ہیں؟ جبریل نے کہا یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ (عوارف المعارف، ص 407)

2: جس نے اپنے غصے پر قابو پایا،اللہ تعالیٰ اس سے اپنا عذاب روک لے گا۔جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی،اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ ڈال دے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ سے معذرت کی،وہ اس کا عذر قبول کرے گا۔(مراۃ المناجیح، 6/667)

3: جو شخص غصے کو پی جائے، جب کہ وہ بدلہ لینے پر قادر ہو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اسے تمام مخلوقات کے سامنے بلائے گا اور اسے کہے گا کہ وہ جس حورعین کو چاہے، اپنے لیے پسند کر لے۔ (ابو داود، 4/325، حدیث: 4777)

معذرت قبول نہ کرنا گناہ ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی سے معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا ٹیکس وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کسی شخص نے اپنے کسی مسلمان بھائی سے اپنی غلطی پر معافی مانگی اور اس نے اس کی معافی قبول نہ کی تو اس کو حوض کوثر پر آنا نصیب نہ ہوگا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

معذرت اور معاف کرنے کی عادت ڈالیے۔ اے اللہ! اگر میں نے کسی کا دل دکھایا ہو یا کسی کو تکلیف پہنچائی ہو تو مجھے اخلاقی جرات اور حوصلہ دے کہ میں اس سے معذرت کر سکوں۔اور اگر کسی نے مجھے تکلیف اور دکھ پہنچایا ہو تو مجھے توفیق دے میں اسے معاف کر سکوں۔