بندوں کے حقوق کا معاملہ یقیناً بہت نازک ہے، ہمیں اس بارے میں ہر وقت محتاط رہنا چاہیے۔اگر کبھی جانے انجانے میں کسی مسلمان کا حق ضائع ہوجائے تو فوراً توبہ کرتے ہوۓ صاحب حق سے معافی بھی مانگنی چاہیے۔کیونکہ بندوں کے حقوق کا ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور بندوں کے حقوق واجبہ ادا نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے جو صرف توبہ کرنے سے معاف نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ضروری ہے کہ توبہ کے ساتھ ساتھ یا تو حقوق ادا کر دے یا حقوق والوں سے معاف کروالے، چنانچہ

مکتبۃ المدینہ کی کتاب احیاء العلوم جلد 4 صفحہ نمبر 115 پر لکھا ہے:یاد رہے! گناہ کو ذکر کرنا اور دوسروں کو اس پر آگاہ کرنا ایک نیا گناہ ہے جس کی الگ معافی مانگنا پڑے گی۔ البتہ! جس کا حق ضائع کیا ہے اس کے سامنے بیان کرے لیکن اگر وہ معاف کرنے پر راضی نہ ہوا تو گناہ اس کے ذمّہ باقی رہے گا کیونکہ معاف نہ کرنا اس کا حق ہے۔یاد رہے!جس سے معافی مانگی جائے اسے چاہیے کہ معاف کردے،حدیث پاک میں ہے: جس کے پاس اس کا بھائی معذرت کرنے کے لئے آیا تواسے چاہیے کہ اپنے بھائی کو معاف کردے، خواہ وہ جھوٹاہو یا سچا۔جو معاف نہیں کرے گا، حوض کوثرپر نہ آسکے گا۔ (مستدرک، 5/213، حدیث:7340)

اسے(یعنی معافی مانگنے والے کو)چاہئےکہ اس سے نرمی کا سلوک کرے،اس کے کام کاج اور ضروریات میں مدد کرے اور اس سے محبّت اور شفقت کا اظہار کرے تاکہ اس کا دل اس کی طرف مائل ہو کہ (مشہور مقولہ ہے) انسان احسان کا غلام ہے۔

جو شخص برائی کے سبب دور ہوتا ہے وہ نیکی کے ذریعے مائل ہوجاتا ہے۔ تو جب محبّت وشفقت کی کثرت ہوگی اور اس وجہ سے اس کا دل خوش ہوگا تو وہ خود معاف کرنے پر تیار ہوجائے گا لیکن اگر وہ اس کے باوجود معاف نہ کرنے پر اصرار کرے تو ممکن ہے کہ اس سے نرمی وشفقت کا سلوک اور عذر پیش کرنا مجرم کی ان نیکیوں میں شمار ہوجائے جن کے ذریعے قیامت کے دن اس کی زیادتیوں کا بدلہ چکایا جائے۔بہرحال اسے چاہئے کہ محبّت وشفقت کے ذریعے اسے خوش کرنے کی کوشش اسی طرح کرتا رہے جس طرح اسے تکلیف پہنچانے میں کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ ایک عمل دوسرے کے برابر یا اس سے زائد ہوجائے تو قیامت کے دن اللہ پاک کے حکم سے بدلے میں اس کا یہ عمل قبول کرلیا جائے گا جیسے کوئی شخص دنیا میں کسی کا مال ہلاک کردے پھر اس کی مثل لائے لیکن مال کا مالک اسے قبول کرنے یا معاف کرنے سے انکار کردے تو حاکم اس مال پر قبضہ کرنے کا فیصلہ دے گا چاہے وہ قبول کرے یا نہ کرے۔ اسی طرح میدان قیامت میں سب سے بڑا حاکم اور سب سے زیادہ انصاف کرنے والا اللہ کریم حکم جاری فرمائے گا۔

مکتبۃ المدینہ کی کتاب جنّتی زیورکے صفحہ نمبر103 اور 104پر لکھا ہے:اگر کسی کا تمہارے اوپر کوئی حق تھا اور تم اس کو کسی وجہ سے ادا نہیں کر سکے تو اگر وہ حق ادا کرنے کے قابل کوئی چیز ہو مثلاً کسی کا تمہارے اوپر قرض رہ گیا تھا تو اس کو ادا کرنے کی تین (3) صورتیں ہیں یا تو خود حق والے کو اس کاحق دے دویعنی جس سے قرض لیا تھا اسی کو قرض ادا کردویا اس سے قرض معاف کرالو۔ اگر وہ شخص مر گیا ہو تو اس کے وارثوں کو اس کا حق یعنی قرض ادا کر دو۔ اگر وہ حق ادا کرنے کی چیز نہ ہو بلکہ معاف کرانے کے قابل ہو مثلاًکسی کی غیبت کی ہو یا کسی پر تہمت لگائی ہو تو ضروری ہے کہ اس شخص سے اس کو معاف کرالو۔ اور اگر کسی وجہ سے حق داروں سے نہ ان کے حقوق کو معاف کراسکا،نہ ادا کرسکا،مثلاً جن کا حق تھا وہ مرچکے ہوں تو ان لوگوں کے لئے ہمیشہ بخشش کی دعاکرتا رہے اور اﷲ پاک سے توبہ و استغفار کرتا رہے تو امید ہے کہ قیامت کے دن اﷲکریم حق والوں کو بہت زیادہ اجرو ثواب دے کر اس بات کے لئے راضی کردے گا کہ وہ اپنے حقوق کو معاف کردیں۔ اگر تمہارا کوئی حق دوسروں پر ہو اور اس حق کے ملنے کی امید ہو تو نرمی کے ساتھ تقاضا کرتے رہو۔ اگر وہ شخص مرگیا ہو تو بہتر یہی ہے کہ تم اپنے حق کو معاف کردو،ان شاء اللہ قیامت کے دن اس کے بدلے میں بہت بڑا اور بہت زیادہ اجرو ثواب ملے گا۔