معذرت (انگریزی Apology) چاہنا کسی حرکت بات یا صورت حال پر تاسف اور افسوس کا اظہار ہے۔ معذرت کبھی خود کی وجہ سے رو نما کیفیت پر ہو سکتی ہے اور کبھی اپنے متعلقین کی وجہ سے جو ہوا اس کی وجہ سے بھی ممکن ہے۔

قرآن پاک میں معاف کرنے کی فضیلت: وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۠(۴۳) (پ 25، الشوریٰ: 43) ترجمہ کنز العرفان: اور بیشک جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور:22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰) (پ 25، الشوریٰ:40)ترجمہ کنز العرفان: اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔

معذرت قبول کرنے کے بارے میں احادیث ملاحظہ کیجئے:

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک الله تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔ (مستدرك، 5 / 546، حدیث: 8216)

معذرت قبول نہ کرنے والوں کے لیے وعید: آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے سامنے عذر پیش کرے اور وہ اسے معذور نہ سمجھے یا وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو اس پر ٹیکس وصول کرنے والے کی مثل گناہ ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)

ہمارے پیارے نبی ﷺ کا عمل: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ بے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے اور برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ ﷺ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بشرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اور جب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ ﷺ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے اور آپ کو جب بھی دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔

آپ ﷺ نے بدلہ کبھی نہیں لیا رسول اکرم ﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا انتقام لیتے تھے۔ (بخاری، 2/489، حدیث: 3560)

واضح رہے کہ معافی مانگنے والے کے اور جس سے معافی طلب کی جا رہی ہو، ان کے حالات مختلف ہیں اور حالات کے اعتبار سے حکم بھی مختلف ہے۔ جس سے معافی طلب کی جا رہی ہو، اگر اسے اندازہ ہو کہ معافی مانگنے والے کو معاف کر دیا تو وہ دوبارہ زیادتی کرے گا اور اس کے اس عمل کی حوصلہ افزائی ہوگی، تو ایسی صورت میں اس کے فتق یا جہالت کی اصلاح کی نیت سے اسے معاف نہ کرنا اور جائز بدلہ لینا یا قیامت کے دن کے بدلہ سے ڈرانا جائز ہے۔ تاہم ایسے شخص کے دل میں یہ جذبہ ہونا بہتر ہے کہ جب اصلاح ہو جائے تو اسے دل سے معاف بھی کر دے۔ نیز اگر یہ جذبہ بھی ہو کہ اصلاح نہ ہو، تب بھی دل سے معاف کر دے؛ تاکہ قیامت میں مسلمان بھائی کی پکڑ نہ ہو، تو یہ اعلیٰ ظرفی کی بات ہے، اگر چہ اس پر لازم نہیں۔ اسی طرح معافی مانگنے والا اگر اپنی زیادتی پر نادم (پشیمان و پریشان) نہ ہو، بلکہ رسمی معافی مانگ رہا ہو اور صاحب حق اسے معاف نہ کرے تو اسے قیامت کے دن کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے۔

البتہ اگر معافی مانگنے والا نادم ہو کر معافی مانگ رہا ہو، لیکن صاحب حق اسے معاف نہ کر رہا ہو، تب بھی معافی مانگنے والے کو چاہیے کہ قیامت کے دن کی پکڑ سے خوف زدہ ہو کر صاحب حق کو منانے کی کوشش کرتا رہے۔ اور اگر وہ نہ مانے تو اللہ کے فضل سے امید ہے کہ اس کی دلی ندامت کی وجہ سے قیامت کے دن اس کی پکڑ نہ ہوگی۔ اور جس سے معافی مانگی جا رہی ہو، اگر اس کے سامنے معافی مانگنے والے کا عذر واضح ہو اور معاف کرنے میں کوئی شرعی یا طبعی رکاوٹ بھی نہ ہو، نیز اس کا کوئی نقصان بھی نہ ہو تو ایسے شخص کو معاف کر دینا چاہیے۔ (تفسير کبیر، 27 / 604)

اگر معافی چاہنے والے کو معاف نہ کرے تو یہ معاف نہ کرنے والا خاطی ہے۔

معذرت اور معاف کرنے کی عادت ڈالیے۔ اے اللہ ! اگر میں نے کسی کا دل دکھایا ہو یا کسی کو تکلیف پہنچائی ہو تو مجھے اخلاقی جرات اور حوصلہ دے کہ میں اس سے معذرت کر سکوں اور اگر کسی نے مجھے تکلیف یاد رکھ پہنچایا ہو تو مجھے توفیق دے کہ میں اسے معاف کر سکوں۔

کسی کی خامیاں دیکھیں نہ یہ میری آنکھیں نہ کان بھی سنیں عیبوں کا تذکرہ یارب