معذرت کے معنی: معذرت عربی زبان کا لفظ ہے الزام سے بری ہونا
عذر قبول کرنا معذرت کے معنی میں آتے ہیں اور اعتذار کے معنی ہیں عذر بیان کرنا۔ آج
کل معذرت بھی مشروط ہوتی ہے یعنی کہنے والا کہتا ہے اگر میری بات سے کسی کی یا
فلاں شخص کی دل ازاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں اس کے واضح یہ معنی یہ ہیں کہ
وہ اپنی بات کی صحت پر اصرار کر رہا ہوں اور اس کے کلام سے جو معنی سننے اور پڑھنے
والے کو واضح طور پر سمجھ میں اآا ہے اسے ان کے فہم کا تصور قرار دیتا ہے لہذا یہ
معذرت کسی بھی صورت میں معافی نہیں ہے۔ معافی اسے کہتے ہیں جب انسان اپنی غلطی کا
اعتراف کرے اس پر نادم ہو اور غیر مشروط طور پر اس کی معافی مانگے البتہ غیر مشروط
طور پر اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے جو معذرت کی جائے یا معافی مانگی جائے وہ
قابل تحسین ہے اور ایسے شخص کی معذرت قبول کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ امر ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ حضرت
جودان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے
سامنے اپنی کسی غلطی پر معافی مانگ لی اور اس نے یہ معافی قبول نہ کی تو اس پر
ایسا ہی گناہ ہوگا جیسے ٹیکس کی وصولی میں خیانت یا زیادتی کرنے والے پر ہوتا ہے۔ (ابن
ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
2۔ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ بیان کرتی
ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم پاک دامنی اختیار کرو تاکہ تمہاری عورتیں بھی پاک
دامن ہوں تم اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو تاکہ تمہاری اولاد بھی تمہارے
ساتھ نیک برتاؤ کرے اور جو اپنی کسی غلطی پر اپنے مسلمان بھائی سے معافی مانگے اور
وہ اس کی معافی کو قبول نہ کریں تو وہ میرے حوض کوثر پر نہیں آئے گا۔ (معجم اوسط، 4/376،
حدیث:6295)
3ـ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان
کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے اپنی زبان کو لوگوں کی پردہ دری سے روکے
رکھا اللہ تعالی کے قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جس نے اپنے غصے پر
قابو پایا اللہ پاک اپنے عذاب کو اس سے روک دے گا اور جو اللہ رب العزت کے حضور
اپنی خطاؤں پر معافی کا طلبگار ہو اللہ پاک اس کی معافی کو قبول فرمائے گا۔ (مراۃ
المناجیح، 6/667)
پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے حضورﷺ نے اپنے
مسلمان بھائی کی معذرت قبول نہ کرنے کو حوض کوثر سے سیراب ہونے کی محرومیت کا سبب
قرار دیا ہے اور اللہ پاک بھی بروز قیامت ایسے شخص کو معاف نہیں کرے گا لہذا ہمیں
چاہیے ایک دوسرے سے دل کی گہرائیوں سے معافی مانگیں اور ایک دوسرے کو معاف کر دیں
تاکہ بروز قیامت ہماری اس پر پکڑ نہ ہو۔ آئیے چند اور احادیث مبارکہ جان لیتے ہیں:
4۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہﷺ نے فرمایا: اللہ اس آدمی پر رحم کرے جس نے اپنے بھائی کی عزت یا مال کے
معاملے میں نا انصافی کی ہو اور پھر اس کے پاس جا کر معذرت کر لی ہو قبل اس کے کہ
وہ دن آ جائے جس میں اس کا مواخذہ کیا جائے اور جہاں نہ دینار ہوگا نہ درہم وہاں
تو معاملہ یوں حل کیا جائے گا کہ اگر اس ظالم کے پاس نیکیاں ہوئیں تو اس سے نیکیاں
لے لی جائیں گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم لوگ اپنی برائیاں اس
پر ڈال دیں گے۔
5۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہﷺ نے فرمایا: ایسی بات سے اجتناب کر جس پر معذرت کرنا پڑے۔ (مسند امام احمد، 9/130،
حدیث: 23557)