معذرت قبول نہ کرنا از بنت ہدایت اللہ،
فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ
معذرت قبول نہ کرنا معافی قبول نہ کرنے کے معنی میں
ہی آتا ہے اگر کوئی سچے دل سے معذرت کرے تو اس کی معذرت قبول کر لی جائے اگر کوئی
معذرت کرے ہم سے اپنی کسی غلطی کی تو ہم اسے معاف نہ کریں اس کی معذرت قبول نہ
کریں تو ہو سکتا ہے معذرت کرنے والے کی دل آزاری ہو اور اگر کوئی غلطی کرے تو
معذرت نہ کرے تو ہمیں اس کے بارے میں اپنے دل میں کوئی بدگمانی نہیں رکھنی چاہیے
بلکہ اسے معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے اگر کوئی ہم سے معذرت کرے تو
ہمیں اسے معاف کر دینا چاہیے بندہ کیا چیز ہے جب رب تعالی بندے کی سچے دل کی ایک
معذرت معافی کو قبول کر سکتا ہے تو بندہ پھر کیوں نہیں کسی کو معاف کر سکتا یا کسی
کی معذرت قبول نہیں کرتا معافی معذرت توبہ کرنا تینوں ایک ہی معنی میں آتے ہیں
توبہ رب تعالی کی ذات سے کی جاتی ہے اور معذرت وغیرہ رب تعالی کے بندوں سے کی جاتی
ہے اگر ہم سے کوئی غلطی گناہ وغیرہ سرزد ہو جائے توتوبہ معذرت کے بارے میں حدیث
مبارکہ ہے: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ (ابن
ماجہ، 4/491، حدیث: 4650)
توبہ یعنی معذرت کی ترغیب: توبہ کی بڑی اہمیت ہے
اور یہ اللہ پاک کا ہم پر کرم ہے کہ اس نے ہمیں توبہ جیسی نعمت عطا فرمائی ہے بندہ
کتنا خوش نصیب ہے کہ اگر بتقائے بشریت اس سے جھوٹ غیبت شراب نوشی یا کوئی اور گناہ
سرزد ہو جائے اور پھر وہ اللہ کی بارگاہ میں شرمندہ ہو کر معافی مانگ لے تو اسے
معافی مل جاتی ہے۔ اپنے گناہوں غلطیوں کو یاد رکھیں اور فورا سے گناہوں کی معافی
اور غلطیوں کی معذرت کر لیا کریں نہ جانے کب زندگی ختم ہو جائے تو ہمیں اپنی
گناہوں اور غلطیوں سے معذرت کرنے کا موقع ہی نہ ملے اس بارے میں ایک نوجوان کا واقعہ
بیان کرتی ہوں جو اپنے گناہ یاد رکھتا اور لکھتا تھا، چنانچہ
ایک نوجوان اللہ پاک سے بہت ڈرتا تھا اور جب بھی اس
سے کوئی گناہ سرزد ہوتا تو اسے اپنی ڈائری میں لکھ لیتا ایک بار جب اس نوجوان سے
کوئی گناہ سرزد ہوا اور اس نے حسب معمول اپنی اس گناہ کو لکھنے کے لیے اپنی ڈائری
کھولی تو اس پر پارہ 19 سورہ فرقان کی آیت نمبر 70 کا یہ حصہ تحریر تھا: ترجمہ کنز
العرفان: تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان
ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 27)
اگر گناہوں کو یاد رکھنے سے رب تعالیٰ کی ذات بندے
کو بخش سکتی ہے تو پھر اپنے گناہوں سے توبہ معذرت کرنے پر بھی ضرور بخش دے گی مگر
توبہ اور معذرت سچے دل سے ہو دوسروں کو ان کے گناہوں اور غلطی پر شرمندہ نہیں کرنا
چاہیے کہ وہ معذرت کریں یا معافی مانگیں بلکہ اصلاح کا ایک طریقہ ہوتا ہے اس بارے
میں حدیث مبارکہ بھی ہے: جس نے اپنے بھائی کو ایسے گناہ پر شرم دلائی جس سے وہ
توبہ کر چکا ہے تو مرنے سے پہلے وہ خود اس گناہ میں مبتلا ہو جائے گا۔ (ترمذی، 4/662، حدیث: 2513)
شرحِ حدیث: گناہ سے وہ گناہ مراد ہے جس سے وہ توبہ
کر چکا ہے یا وہ پرانا گناہ جسے لوگ بھول چکے یا خفیہ گناہ جس پر لوگ مطلع نہ ہوں
اور عار دلانا توبہ کرانے کے لیے نہ ہو محض غصہ اور جوش غضب سے ہو یہ کوئی اور
خیال میں رہیں مزید یہ کہ ایسا شخص اپنی موت سے پہلے یہ گناہ خود کرے گا اور اس
میں بدنام ہوگا مظلوم کا بدلہ ظالم سے خود رب تعالی لیتا ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6/473)