حقوق العباد کا معاملہ بڑا نازک ہے، ہمیں ہر وقت اس
معاملے میں احتیاط کرنی چاہیئے۔ بندوں کے دل
ہماری وجہ سے نہ دکھیں نہ ہی کسی طرح کی کوئی تکلیف ہماری وجہ سے کسی مخلوق کو
پہنچے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ مومن وہ
ہے جس سے لوگ بے خوف رہیں اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں۔
(مسند امام احمد، 4/308، حدیث: 12562)
ہم انسان ہیں اور کبھی ہم سے بتقاضہ بشریت کسی ذات
کو تکلیف پہنچ جائے تو ہمیں چاہیے کہ فوراً معذرت کرلیں اور رب کی بارگاہ میں توبہ
و تائب ہوتے رہیں اور جب معذرت کی جائے تو چاہیے کہ اسے (وہ شخص) قبول کرے اگر
کوئی معافی مانگنے آئے تو چاہیے کہ اسے مایوس نہ کریں بلکہ اسے معاف کردیں۔ حدیث
پاک میں ہے: جس کے پاس اس کا بھائی معذرت کرنے کے لئے آیا تواسے چاہیے کہ اپنے
بھائی کو معاف کردے، خواہ وہ جھوٹاہو یا سچا۔ جو معاف نہیں کرے گا حوض کوثرپر نہ
آسکے گا۔ (مستدرک، 5/213، حدیث:
7340)
ایک اور جگہ پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ
پاک معاف کر دینے سے بندے کی عزت ہی میں اضافہ فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 6592)
اس فرمان عالی شان کی وضاحت یہ ہے کہ جو شخص معاف و
درگزر کرتا ہے تو ایسے شخص کا مقام و مرتبہ لوگوں کے دلوں میں بڑھ جاتا ہے، ایک
معنی اس کا یہ بھی ہے کہ اس سے مراد اخروی اجر اور وہاں کی عزت ہے۔ (دلیل الفالحین،
4 / 538 ملخصاً)
اے عاشقان رسول! افسوس! کہ آج بات بات پر ناراض یا
بدگمان ہوکر تعلقات قطع کر دیئے جاتے ہیں۔ معافی مانگنے کی زحمت بھی نہیں اٹھائی
جاتی اور کوئی معافی مانگ بھی لے تو اسے رسوا کیا جاتا ہے۔ اے عاشقان رسول! ان
احادیث مبارکہ کی روشنی میں غور کریں تو ہمارے لئے اجر ہی اجر ہے۔ معافی مانگنے پر
بھی اور معاف کر دینے پر بھی۔ اور جو اپنے بھائی کی معذرت قبول نہ کرے اس کے لئے
سخت وعیدیں بھی ہیں۔
یاد رہے! اپنے ذاتی حقوق تو معاف کرنے میں ہماری
عزت ہے لیکن شرعی حقوق پامال کرنے والوں کو رعایت دینے سے جرائم میں اضافہ ہوتا ہے
لہٰذا ایسے لوگوں کو شرعی تقاضوں کے مطابق سزا ہی دی جائے گی۔