معذرت کا معنی معافی مانگنا ہے کس چیز کی؟کسی کے ساتھ تلخ کلامی کر دی تو معافی مانگنا، کسی کا دل دکھا دیا، کسی کو برا بھلا کہا وغیرہ کی معافی مانگنا۔ کہتے ہیں انسان خطا کا پتلا ہے۔ شیطان کے لیے ہمیں بہلانا پھسلانا کوئی مشکل کام نہیں اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا(۵۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 53) ترجمہ: بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

کبھی انسان کو انا کے نام پر دوسروں کے ساتھ تعلق توڑنے کو کہتا ہے اور کبھی انسان کے اندر غرور و تکبر پیدا کر کے انہیں لوگوں کی دل آزاری کرنے کو کہتا ہے۔ ایسے میں ہم جیسے کمزور نفس کے مالک سے یہ خطا سرزد ہو جاتی ہے۔ تو ایسے میں کیا کیا جائے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے اپنے کیے کی لیکن کیا وہ میری معافی قبول کرے گا۔

معافی قبول ہونے کے مراحل: معافی قبول ہونے کا پہلا مرحلہ شرمندگی ہے دوسرا مرحلہ معافی مانگنا ہے اس شخص سے جس کی دل آزاری کی ہے اور تیسرا مرحلہ جو کہ سب سے بڑا درجہ ہے کہ جس سے معافی مانگی جارہی ہے وہ اسے معاف کر دے۔

شیطان کے بہلاوے: لیکن اب یہاں پر بھی شیطان ہمیں چھوڑ تو نہیں سکتا اب ہم سب لوگوں کی طرح اس کی بھی ایک ڈیوٹی ہے اور شیطان اپنی اس ڈیوٹی کو پورے خشوع و خضوع سے ادا کرتا ہے: ارے تم کیوں معاف کرو گے اسے اس نے تمہیں یہ کہا اس نے تمہیں وہ کہا جہاں بھر کی ساری اس کی برائیاں لا کر پیش کر دے گا اور بعض لوگ پھر نفس کے بہکاوے میں آکر معاف نہیں کرتے۔

افسوس !ہم اس معاملے میں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اللہ کو رحم کرنا بے حد پسند ہے اور یہ اس رحمان کی صفت بھی ہے۔ ہم بھی تو خطا کرتے ہیں بار بار خطا کرتے ہیں اور بار بار اللہ سے معافی مانگتے ہیں جو خطا نہ کرے وہ تو فرشتہ ہوا انسان تھوڑی، ہاں دل ازاری ہوتی ہے لوگوں کے رویے سے ان کے جملے سے ان کی باتوں سے لیکن اگر بندہ آپ سے معافی مانگ لے شرمندگی کا اظہار کرے تو پھر اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے۔

نبی کے خاطر معاف کرنا: معاف کر دیں لوگوں کو یہ سوچ کر کہ آپ ﷺ جب تک ساری امتی جنت میں نہ چلے جائیں تب تک جنت میں نہیں جائیں گے آخری امتی کے جنت میں داخل ہونے تک انتظار کرتے رہیں گے اور یہ نہ ہو کہ یہ وہ شخص ہو جس نے ہم سے معافی مانگی ہو اور ہم نے اسے معاف نہ کیا ہو اور اب وہ اس کا حساب دے رہا ہو۔