معذرت عربی لفظ ہے، اس کے معنیٰ ہیں: الزام سے بری
ہونا، عذر قبول کرنامعذرت قبول نہ کرنا یعنی اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے، اور وہ
اپنا عذر پیش کرے تو اس کا عذر قبول نہ کرے۔ معذرت قبول نہ کرنے کے برعکس جو معاف
کردینے کو ترجیح دیتا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے اصلاح کرنے والا قرار دیا ہے اور اس
کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔
چنانچہ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے
1۔ اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا
اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا
قَدِیْرًا(۱۴۹)
(پ 6، النساء: 149) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم کوئی بھلائی اعلانیہ کرو یا چھپ کر
یا کسی برائی سے درگزر تو بے شک اللہ معاف کرنے والا قدرت والا ہے۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: اگر تم کوئی نیک کام
اعلانیہ کرو یا چھپ کریا کسی کی برائی سے درگزر کر و تو یہ افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ
سزا دینے پر ہر طرح سے قادر ہونے کے باوجود اپنے بندوں کے گناہوں سے درگزر کرتا
اور انہیں معاف فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اپنے اوپر ظلم وستم کرنے والوں کو معاف کر
دواور لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرو۔ (تفسیر سمرقندی، 1 / 401)
2۔ وَ لْیَعْفُوْا وَ
لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18،
النور:22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہیے کہ معاف
کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ
بخشنے والامہربان ہے۔
3۔ وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ
سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ
لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰) (پ 25، الشوریٰ:40)ترجمہ کنز العرفان:
اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا
اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔
آئیے
احادیث مبارکہ ملاحظہ فرما لیتے ہیں:
1۔ حضورﷺ نے فرمایا:۔ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے
معذرت کرے اور وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو، اسے حوض کوثر پر حاضرہونا نصیب نہ ہو
گا۔ (معجم الاوسط، 4/376،حدیث:6295)
2۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی سے
معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا محصول (
ٹیکس ) وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
3۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت
ہے کہ سلطان دوجہان،شہنشاہ کون ومکان ﷺ کا فرمان عظیم الشّان ہے: جسے یہ پسند ہوکہ
اس کے لیے(جنّت میں)محل بنایا جائے اوراس کے درجات بلند کیے جائیں،اسے چاہیے کہ جو
اس پرظلم کرے، یہ اسے معاف کرے اورجو اسے محروم کرے، یہ اسے عطا کرے اورجو اس سے
قطع تعلّق کرے یہ اس سے ناطہ(یعنی تعلّق)جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)
4۔ حضورﷺ نے ہمیں آپس میں دشمنی وحسد رکھنے،
تعلّقات توڑنےاور معذرت کرنے والوں کی معذرت کو ردّکرنےسے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ نبی
کریم،روفٌ رّحیم ﷺ کا فرمان دلنشین ہے:ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، نہ ایک دوسرے
سے دشمنی کرو،نہ حسد کرو، نہ تعلّقات توڑ نے والے بنو اور اللہ تعالیٰ کے بندو!
بھائی بھائی بن جاؤ۔مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے
محروم کرتا ہے اور نہ اسے رسوا کرتا ہے۔ (مسلم، ص 1386،
حدیث: 2564)
5۔ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوااور عرض
کی:یارسول اللہ ﷺ!ہم خادم کو کتنی بارمعاف کریں؟آپ خاموش رہے۔اس نے پھر وہی سوال
دہرایا،آپ پھر خاموش رہے،جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستّر بار۔
(ترمذی، 3/381، حدیث:1956)
6۔ حضورﷺ نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف
کرے گاقیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)