دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مكتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 862 صفحات پر مشتمل کتاب سیرت مصطفے ﷺ صفحه 604صفحہ 605 پر ہے: حضور نبی اکرمﷺ ایک سفر میں آرام فرما رہے تھے کہ غورث بن حارث نے آپ ﷺ کو شہید کرنے کے ارادے سے آپ ﷺ کی تلوار لے کرنیام سے کھینچ لی، جب سرکار نامدار ﷺنیند سے بیدار ہوئے توغورث کہنے لگا: اے محمد ﷺ !اب آپ ﷺکومجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: الله۔ نبوت کی ہیبت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور سر کار عالی وقار ﷺ نے تلوار ہاتھ مبارک میں لے کر فرمایا: اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچانے والاہے؟ غورث گڑ گڑا کر کہنے لگا: آپ ﷺہی میری جان بچائیے۔ رحمت عالم ﷺنے اس کو چھوڑ دیا اور معاف فرما دیا۔ چنانچہ غورث اپنی قوم میں آ کر کہنے لگا کہ اے لوگو! میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیاکے تمام انسانوں میں سب سے بہتر ہے۔ (الشفا، 1/106)

سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں

سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے مدنی آقا ﷺ نے قاتلانہ حملے کی کوشش کرنے والے کو معاف فرما دیا اور اس سے کیسا حسن سلوک فرمایا، میٹھے مصطفی ﷺکی دیوانیو ! خواہ کوئی آپ کو کتنا ہی ستائے، دل دکھائے ! عفو و درگزر سے کام لیجئے اور اس کے ساتھ محبت بھر اسلوک کرنے کی کوشش فرمائیے۔

معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے۔ خاتم المرسلين، رحمةٌ للعلمین ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے) کی عزت ہی بڑھائے گا اورجوالله کے لیے تواضع ( یعنی عاجزی ) کرے، اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1397، حدیث: 2588)

گالیوں بھرے خطوط پر اعلیٰ حضرت کا عفو و درگزر: کاش ! ہمارے اندر یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ ہم اپنی ذات اور اپنے نفس کی خاطر غصہ کرنا ہی چھوڑ دیں۔ جیسا کہ ہمارے بزرگوں کا جذبہ ہوتا تھا کہ ان پر کوئی کتنا ہی ظلم کرے یہ حضرات اس ظالم پر بھی شفقت ہی فرماتے تھے۔ چنانچہ حیات اعلیٰ حضرت میں ہے: میرے آقا اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن کی خدمت میں ایک بار جب ڈاک پیش کی گئی تو بعض خطوط مغلظات ( یعنی گندی گالیوں ) سے بھر پور تھے۔ معتقدین برہم ہوئے کہ ہم ان لوگوں کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے۔ امام اہلسنت نے ارشاد فرمایا: جو لوگ تعریفی خطوط لکھتے ہیں پہلے ان کو جا گیریں تقسیم کر دو، پھر گالیاں لکھنے والوں پر مقدمہ دائر کر دو۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/43 ملخصاً)

مطلب یہ کہ جب تعریف کرنے والوں کو تو انعام دیتے نہیں پھر برائی کرنے والوں سے بدلہ کیوں لیں!

احمد رضا کا تازہ گلستاں ہے آج بھی خورشید علم ان کا درخشاں ہے آج بھی

جنت پانے کے تین نسخے: آخری نبی ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ پاک ( قیامت کے دن ) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو (اپنی رحمت سے ) جنت میں داخل فرمائے گا۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺوہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: جو تم سے قطع تعلق کرے (یعنی تعلق توڑے ) تم اس سے ملاپ کرو، جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو اور جوتم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔ (معجم اوسط، 1/263، حديث: 909)

حضرت مولینا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

تو برائے وصل کردن آمدی نے برائے فصل کردن آمدی یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کیلئے آیا ہے تو ڑ پیدا کرنے کیلئے نہیں آیا )۔ (مثنوی، 1/173)

مدنی وصیتیں: فرمان امیر اہلسنت الحمد لله! عاشق مدینہ عفی عنہ ( امیر اہل سنت نے بطور عاجزی یہاں پر سگ مدینہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے) نے رضائے الہی پانے کی نیت سے اپنے قرضداروں کو پچھلے قرضوں، مال چرانے والوں کو چوریوں، ہر ایک کو غیبتوں، تہمتوں، تذلیلوں، ضربوں سمیت تمام جانی مالی حقوق معاف کئے اور آئندہ کیلئے بھی تمام تر حقوق پیشگی ہی معاف کر دیئے ہیں، چنانچہ عاشقان رسول کی مدنی تحریک دعوت اسلامی کے مکتبۃ المدینہ کے رسالے مدنی وصیت نامہ (16 صفحات ) صفحہ 9 پر عزت و آبرو اور جان کے متعلق ہے: مجھے جو کوئی گالی دے، برا بھلا کہے ( غیبتیں کرے )، زخمی کر دے یا کسی طرح بھی دل آزاری کا سبب بنے میں اسے اللہ پاک کے لئے پیشگی معاف کر چکا ہوں، مجھے ستانے والوں سے کوئی انتقام نہ لے۔ بالفرض کوئی مجھے شہید کر دے تو میری طرف سے اسے میرے حقوق معاف ہیں۔ ورثا سے بھی درخواست ہے کہ اسے اپنا حق معاف کر دیں (اور مقدمہ وغیرہ دائر نہ کریں )۔ اگر سرکار مدینہ ﷺ کی شفاعت کے صدقے محشر میں خصوصی کرم ہوگیا تو ان شاء اللہ اپنے قاتل یعنی مجھے شہادت کا جام پلانے والے کو بھی جنت میں لیتا جاؤں گا بشرطیکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔ (اگر میری شہادت عمل میں آئے تو اس کی وجہ سے کسی قسم کے ہنگامے اور ہڑتالیں نہ کی جائیں۔ اگر ہڑتال اس کا نام ہے کہ لوگوں کا کاروبار زبردستی بند کروایا جائے۔ نیز دکانوں اور گاڑیوں پر پتھراؤ وغیرہ ہو تو بندوں کی ایسی حق تلفیوں کو کوئی بھی مفتیِ اسلام جائز نہیں کہہ سکتا۔ اس طرح کی ہڑتال حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! جیساکہ ہم نے پڑھا کہ کسی کی غلطی پر معاف کردینےکی بہت فضیلت ہے وہیں کسی کی معذرت پر اس کو معاف نہ کرنے کی وعید بھی موجود ہے جیسا کہ ہمارے مکی مدنی آقا میٹھے میٹھے ﷺنے ارشاد فرمایا ہے: جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے معذرت کرے اور وہ بلا اجازت شرعی اس کا عذر قبول نہ کرے تو اسے حوض کوثر پر حاضر ہونا نصیب نہ ہوگا۔ (معجم اوسط، 2/376، حدیث: 6295 )

یااللہ! ہماری صفوں میں اتحاد پیدا فرما۔ یااللہ! ہمیں ذہنی ہم آہنگی نصیب فرما۔

تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرم دیتی ہوں واسطہ تجھے شاہ حجاز کا