معذرت انگریزیApology چاہنا کسی حرکت بات یا صورتحال پر تاسف اور افسوس کا اظہار ہے معذرت کبھی خود کی وجہ سے رونما کیفیت پر ہو سکتی ہے اور کبھی اپنے متعلقین کی وجہ سے بھی ممکن ہے۔

معذرت اور معافی میں فرق: معذرت لفظ کی اصل عربی زبان ہے جس کو بغور دیکھا جائے تو اس میں ایک لفظ چھپا ہوا ہے عذر۔ اس لفظ سے معذرت اور معافی میں فرق واضح ہو جاتا ہے دراصل معذرت کا مطلب بھی معافی ہی ہوتا ہے تاہم معذرت کرتے ہوئے ساتھ کوئی عذر بھی بیان کر دیا جاتا ہے جبکہ معافی میں غلطی کے لیے کوئی عذر بیان نہیں کیا جاتا بس غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے بغیر کسی عذر کو بیان کیے معافی مانگ لی جاتی ہے۔ البتہ غیر مشروط طور پر اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے جو معذرت کی جائے یا معافی مانگی جائے، وہ قابل تحسین ہے اور ایسے شخص کی معذرت قبول کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ امر ہے۔

آئیے معاف کرنے کی فضیلت پر چند آیت کریمہ جان لیتی ہیں:

وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ کنز الایمان: اور غصّہ پینے والے او ر لوگو ں سے درگزرکرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔

2۔ اسی طرح پارہ18 سورۂ نور کی آیت نمبر22 میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور:22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

معلوم ہوا ! لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا ربّ کریم کو بہت پسند ہے۔یاد رہے! کسی مسلمان سے غلطی ہوجانے پر اسے معاف کرنااگرچہ نفس پر نہایت دشوار ہے،لیکن اگر ہم عفو و درگزر کے فضائل کو پیش نظر رکھیں گے تواللہ پاک کی طرف سے انعام و اکرام کے حقدار بھی قرار پائیں گے۔ ان شاء اللہ

آئیے!اس بارے میں 6احادیث مبارکہ سنئےاورلوگوں کومعاف کرنے کا جذبہ پیداکرنے کی کوشش کیجئے۔

1۔ حساب میں آسانی کے تین اسباب: حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنّت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ ! وہ کون سی باتیں ہیں ؟فرمایا: {1}جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کر واور{2} جو تم سے قطع تعلّق کرے (یعنی تعلّق توڑے) تم اس سے ملاپ کرو اور {3}جو تم پر ظلم کرے تم اس کومعاف کردو۔ (معجم ا وسط، 4/18، حدیث: 5064)

2۔ معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے: خاتم المرسلین ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کاقصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے ) کی عزّت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کے لیے تواضع (یعنی عاجزی) کرے، اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1397، حدیث: 2588)

3۔ معزز کون؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے ربّ اعلیٰ! تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزّت والا ہے؟ فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کردے۔ (شعب الایمان، 6/319، حدیث: 8327)

4۔ فرمایا: جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گاقیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ،3/36، حديث:2199)

5۔ معاف کرنے والوں کی بے حساب مغفرت: حضرت انس سے مروی ہے کہ حضورسرکار مدینہﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کا اجر اللہ کے ذمّۂ کرم پر ہے، وہ اٹھے اورجنّت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا: کس کے لیے اجر ہے؟ وہ منادی (یعنی اعلان کرنے والا ) کہے گا: ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔ تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنّت میں داخل ہوجائیں گے۔ (معجم ا وسط، 1/542، حدیث: 1998)

6–ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوااور عرض کی: یارسول اللّٰہﷺ!ہم خادم کو کتنی بارمعاف کریں؟آپ ﷺخاموش رہے۔اس نے پھر وہی سوال دہرایا،آپﷺ پھر خاموش رہے،جب تیسری بارسوال کیا تو ارشاد فرمایا:روزانہ ستّر(70) بار۔(ترمذی، 3/381،حدیث:1956)

حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: عربی میں ستّر (70) (Seventy)کا لفظ بیان زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو، یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے خطاءًغلطی ہوجاتی ہے، خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو،شریعت کا یاقومی و ملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصورمعاف نہیں کیے جاتے۔ (مرآۃ المناجیح،5/170)

پیاری اسلامی بہنو ! آپ نے سنا کہ لوگوں کو معاف کرنا کس قدر بہترین عمل ہے جس کی دنیا میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہی ہیں مگر آخرت میں بھی ان شاء اللہ اس کی برکت سے جنّت کی خوشخبری سے نوازا جائے گا۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و قدرت کے باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی نفسانی ضد کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ معاف کرکے ثواب کا خزانہ پاتے ہیں۔مگر افسوس!آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی پہنچادے تو ہم عفو و درگزر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہمیں حضور پاکﷺ کی سیرت طیبہ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے کہ آپ کس قدر نرم مزاج تھے۔ آئیے آپ کے معاف کرنے کے متعلق ایک واقعہ سن لیتی ہیں:

قاتلانہ حملے کی کوشش کرنے والے کو معاف فرما دیا: دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 862 صفحات پر مشتمل کتاب، سیرت مصطفیٰ ﷺ صفحہ 604 تا605پر ہے:ایک سفر میں نبی معظّمﷺ آرام فرمارہے تھے کہ غورث بن حارث نے آپﷺ کو شہید کرنے کے ارادے سے آپﷺ کی تلوار لے کر نیام سے کھینچ لی، جب سرکار نامدارﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو غورث کہنے لگا: اے محمد (ﷺ) ! اب آپﷺ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ۔ نبوّت کی ہیبت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور سرکار عالی وقارﷺ نے تلوار ہاتھ مبارک میں لے کر فرمایا: اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچانے والا ہے؟ غورث گڑگڑا کر کہنے لگا: آپﷺ ہی میری جان بچائیے۔ رحمت عالمﷺ نے اس کو چھوڑ دیااور معاف فرما دیا۔ چنانچہ غورث اپنی قوم میں آ کر کہنے لگا کہ اے لوگو! میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا کے تمام انسانوں میں سب سے بہتر ہے۔ (الشفا، 1/106)

سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں

سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دی

پیاری اسلامی بہنو! ہمیں چاہیے کہ پیارے آقاﷺ کے اسوہ کی پیروی کریں اور آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کو معاف کرنے کے جذبے کو فروغ دیں۔ اللہ پاک ہمیں عفو و درگزر سے کام لینے اور معاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین