قال رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : السمت
الحسن والتؤدۃ الاقتصاد جزء من اربع و عشرین جزءاً من النبوۃ۔ ترجمہ
: اللہ پاک کے رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پسندیدہ طریقہ
اور تسلی و اطمینان سے کام کی انجام دہی اور میانہ روی یہ نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے ۔ ( اشعۃا للمعات ،
2/191)
میانہ روی کا معنیٰ ہے ہر کام اور ہر حالت
میں میانہ روی اختیار کرنا ۔آج کل ہم جتنی پریشانیوں کا شکار ہیں ان کی سب سے بڑی
وجہ اعتدال اور میانہ روی کا فقدان ہے ۔بے اعتدالی فضول خرچی اور اسراف آج ہماری
نسلوں میں رچ گئی ہے ۔آج ہمارے معاشرے میں دیکھا جائے تو اجتماعی طور پر ہمارا
پورا معاشرہ بے پناہ خرابیوں کے ساتھ بے اعتدالی اور میانہ روی سے کوسوں دور غلو
وتفصیر کا شکار ہے ۔بچے کی پیدائش سے لے کر شادی خوشی غمی اور ہر کام میں غلو و
تفصیر سے کام لیا جاتا ہے ۔اور شادی کے موقع پر بے پناہ فضول خرچی کا نہ ختم ہونے
والا سلسلہ ہے۔
مجبور قرضہ لے کر شادی کرتا ہے اور صاحب استطاعت
ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لے فضول خرچی کرتا ہے ۔انسان کے پاس کتنے ہی وسائل
ہوں بہر حال یہ دولت اور وسائل ایک نہ ایک دن ختم ہو نے والے ہیں ۔ایک انسان کی
دانش مندی یہ ہے کہ ایک روپیہ بھی ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کرے۔اسلام ہمیں فضول خرچی
سے روکتا ہے جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد
ہے :
وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ- تَرجَمۂ
کنز الایمان: اور کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو۔(الاعراف: 31)
اسی طرح جو لوگ عام زندگى میں مسرقانہ رویہ
اپناتے ہیں ان کو شیطان کا بھائی کیا جاتا ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ
كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی
ہیں ۔(بنی اسرائیل: 27)
گویا فضول خرچی ایک شیطانی عمل ہے جسں سے
بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔درحقیقت فضول خرچی سادہ طرز زندگی سے انحراف کا نتیجہ ہے
۔ہمارے آقا نے ہمارے لیے جو زندگی کا نمونہ چھوڑا وہ انتہا درجے کی سادگی پر مبنی
ہے ۔ہم نے سادگی کو چھوڑ کر اپنے آپ کو پریشانیوں میں ڈال لیا ہے ۔ کفایت شعاری
ہماری ضرورت بھی ہے ۔اگر ہم کم خرچ کریں گے تو اس انداز میں کامیاب ہو جائیں گے کہ
مشکل وقت میں یہ روپیہ ہمارے کام آئے گا۔
انفرادی طور پر کفایت شعاری ہمیں تحفظ فراہم
کرتی ہے ۔اور اجتماعی طور پر یہ ملک کے کام آئے گی۔کفایت شعاری سے مہنگائی بھی دور ہوتی ہے ۔معاشیات کا اصول ہے۔خرید داری
جتنی زیادہ ہو گی قیمتوں میں اسی قدر اضافہ ہو گا۔لہذا اگر ہم بے تحاشا فضول خرچی
سے اجتناب کریں تو قیمتوں میں اضافے کا رجحان کم ہو گا اور قیمت اعتدال میں رہے
گی. چنانچہ میانہ روی اوراعتدال ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں کئی مسائل سے نجات
دلاسکتا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ" خیر الامور اوسطہا" یعنی بہترین کام وہ ہے جو میانہ روی
سے کیے جائیں۔ (احیاء العلوم ،جلد ،3 صفحہ 176)
میانہ روی سے اخلاق مضبوط ہوتے ہیں اور حقوق
کا احساس ہوتا ہے اور انسان رزق حلال کمانے کی کوشش کرتا رہتا ہے انسان کو
اس بات کا شعور ہو جاتا ہے کہ راحت و سکون میانہ روی اور کفایت شعاری سے ہی حاصل
کیا جا سکتا ہے۔
مشہور ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں
پھیلاؤ:
یعنی
عقلمندی یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزاریں، نمود و نمائش سے پرہیز
کریں ظاہر پرستی گروپ چھوڑ کر سادہ زندگی کو اپنائیں ۔ اس طرح نہ صرف مالی طور پر
آسودہ ہوں گے بلکہ سادگی اور کفایت شعاری ہمیں خوشحال بنائے گی اور اس کا اثرہمارے
ملک کی معیشت پر مرتب ہوگا اور یوں ہماری دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ ہماری عاقبت
بھی سنور جائے گی۔