اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
3 years ago

کفایت شعاریFrugality جہاں ایک طرف ہماری ضرورت ہے وہیں دوسری طرف یہ شریعت کو بھی مطلوب ہے۔ اس میں بہت سے دینی و دنیاوی فوائد مضمر ہیں، کفایت شعاری کوبعض لوگ بخل سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔بخل ضرورت کی جگہ خرچ نہ کرنے کا نام ہے جب کہ کفایت شعاری اسراف سے بچتے ہوئے اعتدال کے ساتھ اخراجات پر کنٹرول رکھ کر منظم انداز میں ضروری و غیر ضروری اشیاء کا حساب لگا کر خرید و فروخت اور لین دین میں، میانہ روی اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔جیسے سب لوگوں کی آمدنی برابر نہیں ہوتی ایسے ہی اخراجات بھی یکساں نہیں ہوتے، اقتصادیات کو متوازن رکھنا نہایت ہوشمندی کا کام ہے۔ فضول خرچی پر قابو ضروری ہے، کفایت شعاری ہی کم خرچ بالا نشین کا فارمولہ بھی ہے۔بے دھڑک خرچ کرنا عاقبت اندیشی کے خلاف ہے، سلیقہ مندی اختیار کرتے ہوئے افراط و تفریط سے بچنا از حد ضروری ہے۔ قرآن کریم اسکی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ترجمۂ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا ۔(پ15،بنی اسرائیل ،29 )

راہ اعتدال شریعت کو مطلوب ہے۔اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ (پ19، الفرقان ، 67)

یہ کامل ایمان والوں کی صفت ہے اور فضول خرچی کی قرآن کریم میں مذمت وارد ہوئی ہے: وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا ترجمۂ کنزالایمان: اور فضول نہ اڑا بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں۔ (پ15،بنی اسرائیل:27)

صراط الجنان فی تفسير القرآن میں مفتی محمد قاسم صاحب نے وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا کی تفسیر اس طرح بیان فرمائی ہے:{ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا : اور فضول خرچی نہ کرو} یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تَبذیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مَصرف میں خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک درہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ (خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۱۷۲)

اِسرا ف کا حکم اور اس کے معانی:

اسراف بلاشبہ ممنوع اور ناجائز ہے اور علمائےکرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں ، ان میں سے 11 تعریفات درج ذیل ہیں :

(1)…غیرِ حق میں صَرف کرنا۔ (2) … اللہ پاک کے حکم کی حد سے بڑھنا۔ (3) …ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرعِ مُطَہَّر یا مُرَوّت کے خلاف ہو ،اول حرام ہے اور ثانی مکروہِ تنزیہی۔ (4) …طاعتِ الٰہی کے غیر میں صرف کرنا۔ (5) …شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا۔ (6) …غیرِ طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا۔ (7)…دینے میں حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا۔ (8) …ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کردینا۔ (9) …حرام میں سے کچھ یا حلال کو اِعتدال سے زیادہ کھانا۔ (10) …لائق وپسندیدہ بات میں لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا ۔ (11) …بے فائدہ خرچ کرنا۔

اس سے اگلی آیت میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے: اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا ترجمۂ کنزالایمان:بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیںاور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے ۔

ان آیات سے معلوم ہوا کفایت شعاری شریعت کو بھی مطلوب ہے نیزمصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل راہنمائی احادیث کی صورت میں بھی موجود ہے اور اسکے دنیاوی فوائد الگ ہیں اور بے اعتدالی کے نقصانات الگ ہیں۔ فضول خرچ آدمی اپنے پروردگار کا شکر ادا نہیں کر سکتا، اسکی روزی میں جتنا بھی اضافہ ہوجائے اسے کافی نہیں ہوتا،فضول خرچی بڑھتے ہوئے مسائل کی ایک اہم وجہ بھی ہے جبکہ کفایت شعاری اور میانہ روی سے بہت سی فکریں کم ہوجاتی ہیں۔انسان اپنی ذات اورضروریات پر خرچ کرنے کے علاوہ اپنے کاروبار کو بھی بڑھا سکتا ہے، اپنے اہلِ خانہ کے علاوہ عزیز و اقارب پر بھی خرچ کر سکتا ہے، فلاحی کاموں میں لگا سکتا ہے، صدقہ و خیرات بھی کر سکتا ہے۔ ہر شخص کو چاہیے کہ کفایت شعاری کے لیے مختلف طریقے اختیار کرے، اپنے گھر کا بجٹ بنائے اور ضروریاتِ زندگی، تعلیم، کھیل و تفریح ،لانگ ٹرم پروگرام خوشی غمی اور صدقات کے لیے حصے مقرر کرے۔ کفایت شعاری میں کامیابی تب ہی ممکن ہے جب گھر کے دیگر افراد بھی ساتھ تعاون کریں، مقابلہ بازی سے کوسوں دور رہیں، کفایت شعاری سے صرف ایک گھر ہی نہیں بلکہ اس فارمولہ کو اپنا کر ایک ملک کو بھی بہتر انداز میں چلایا جا سکتا ہے۔اللہ جواد وکریم ہم سب کو بقدر ِضرورت روزی عطا فرما کر درست جگہ پر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔