اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے: اَرَءَیْتَ الَّذِیْ
یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱) فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲) (پ
30، الماعون: 1، 2) ترجمہ: کیا تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی ہے جو
یتیم کو دھکے دیتا ہے۔
یہ آیت واضح
کرتی ہے کہ یتیم کو دھکے دینا، اس سے بدسلوکی کرنا، دین کے انکار کی نشانیوں میں
سے ہے۔ دین کا تقاضا ہے کہ یتیم کو پیار، محبت اور سہارا دیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا: جس نے کسی یتیم کے ساتھ سختی کی، اللہ قیامت کے دن اس سے سختی کرے گا۔
نبی کریم ﷺ نے
یتیم کے ساتھ حسن سلوک کو جنت کا ذریعہ بتایا اور بدسلوکی کو ہلاکت کا راستہ۔
یتیم کا مال
کھانا:
اِنَّ الَّذِیْنَ
یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا
اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ
سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ
4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ
میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں
گے۔
حضرت سفیان
ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک شخص یتیموں کی جائیداد کا سرپرست بنا۔ اس نے
کچھ مال خود پر خرچ کیا، یتیموں سے سختی کی۔ کچھ عرصہ بعد وہ فالج میں مبتلا ہو
گیا، اس کا مال برباد ہو گیا، بیٹے نافرمان ہو گئے۔ مرتے وقت سخت تکلیف میں تڑپتا
رہا اور زبان پر صرف یہ الفاظ تھے کاش! میں یتیموں کے مال میں خیانت نہ کرتا۔
یتیم وہ ہوتا
ہے جس کا دنیا میں کوئی سہارا نہیں، یتیم کی آہ عرش تک پہنچتی ہے، یتیم کے ساتھ
نرمی، شفقت، محبت اور عدل فرض ہے، جو یتیموں پر ظلم کرے، وہ اللہ کے قہر سے بچ
نہیں سکتا۔
نبی
کریم ﷺ کی یتیم نوازی: آپ ﷺ خود یتیم تھے، مگر آپ نے کبھی کسی یتیم کو رنج
نہیں دیا۔ بلکہ فرمایا: جس نے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا، اللہ تعالیٰ اس کے ہربال
کے بدلے نیکی لکھے گا۔
ہم
کیا کریں؟ یتیم
بچوں سے حسن سلوک کریں، ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں، ان کے چہروں پر
مسکراہٹ لائیں، ان کے مال میں خیانت نہ کریں، انہیں احساس محرومی نہ ہونے دیں۔
یا اللہ! ہمیں
یتیموں سے حسن سلوک کرنے والا بنا اور ان کی دعائیں پانے والا بنا۔ یا رب! ہمیں
یتیموں کا سہارا بنا، نہ کہ ان کا غم!
یتیم
کے چہرے پہ ہنسی لا کے تو دیکھو
خدا
خود تیرے لبوں کو مسکرا دے گا