اسلام امن و سلامتی والا عالمگیر مذہب ہے، یہ مسلمانوں کے آپس کے لڑائی جھگڑوں، ناراضگیوں، منافرت و قطع تعلقی سے بچنے اور اتفاق و اتحاد و امن و سلامتی کے ساتھ مل جل کر رہنے کا درس دیتا ہے ہے اور اگر کبھی کوئی مسلمان کسی معاملے میں دوسرے مسلمان سے لڑ پڑے، ناراض ہوجائے تو دیگر مسلمانوں کو ان میں صلح کروانے کا حکم دیتا ہے، تاکہ مسلمان متحد ہو کر رہیں، متفرق نہ ہوں۔

قرانی آیات کی روشنی میں صلح کا حکم:

مسلمانوں میں صلح کروانے والوں کے لئے قرآن مجید میں جابجا فضائل بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو۔"

پارہ 13، سورۃ الرعد، آیت نمبر 21 میں اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

وَ الَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ يُّوْصَلَ ترجمہ کنزالایمان:"اور وہ کہ جوڑتے ہیں اسے، جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا۔"

احادیث کریمہ میں صلح کے فضائل:

احادیث کریمہ میں صلح کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"کیا میں تمہیں ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں، جسے اللہ اور اس کے رسول پسند کرتے ہیں؟ وہ یہ ہے جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ جائیں تو ان میں صلح کروا دو۔"

ایک اور روایت میں ہے:"صلح کروانے کو درجے کے اعتبار سے روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل قرار دیا گیا ہے۔"(ہاتھوں ہاتھ پُھوپھی سے صُلح کرلی)

اللہ عزوجل بھی بروزِ قیامت مسلمانوں میں صلح کروائے گا:

ایک روز سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، چہرہ مبارک پر تبسم نمودار ہوا، جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس لئے تبسم فرمایا؟ارشاد فرمایا: میرے دو امتی اللہ کریم کی بارگاہ میں دو زانو ہو کر گر پڑیں گے، ایک عرض کرے گا، یا اللہ اس سے میرا انصاف دلا، کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا تھا، اللہ کریم مدّعی(یعنی دعویٰ کرنے والے) سے فرمائے گا، تم اپنے بھائی کے ساتھ کیا کرو گے، اس کے پاس تو کوئی نیکی باقی نہیں، مظلوم عرض کرے گا:میرے گناہ اس کے ذمے ڈال دیں، اتنا ارشاد فرماکر سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم روپڑے، فرمایا:وہ دن بہت عظیم دن ہوگا، کیونکہ اس وقت ہر ایک اس بات کا ضرورت مند ہو گا کہ اس کے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو، اللہ پاک مظلوم سے فرمائے گا، دیکھ تیرے سامنے کیا ہے؟ وہ عرض کرے گا، اے پروردگار! میں اپنے سامنے سونے کے بڑے بڑے شہر اور بڑے بڑے محلات دیکھ رہا ہوں، جو موتیوں سے آراستہ ہیں، یہ شہر اور عمدہ محلات کس پیغمبر یا صدیق یا شہید کے لئے ہیں؟ اللہ کریم فرمائے گا: یہ اس کے لئے ہیں، جو ان کی قیمت ادا کرے، بندہ عرض کرے گا:ان کی قیمت کون ادا کرسکتا ہے؟اللہ کریم فرمائے گا: تو ادا کرسکتا ہے، عرض کرے گا:کس طرح؟ اللہ کریم فرمائے گا:اس طرح کہ تو انے بھائی کے حقوق معاف فرما دے، بندہ عرض کرے گا:یا اللہ میں نے سب حقوق معاف کئے، اللہ پاک فرمائے گا، اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اور جنت میں چلے جاؤ۔ پھر سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:"اللہ سے ڈرو اور مخلوق میں صلح کرواؤ، کیونکہ اللہ نے بھی بروزِ قیامت مسلمانوں میں صلح کروائے گا۔"

صلح کس طرح کروائیں؟

اے عاشقانِ رسول! ہمیں بھی چاہئے کہ ان فضائل کو حاصل کرنے کے لئے روٹھنے والے مسلمانوں میں صلح کروا دیا کریں،صلح کروانے سے پہلے ربّ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں، پھر لڑنے والوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی سنیں، پھر نرمی سے صلح کے فضائل بیان کریں اور آپسی جھگڑے اور اختلافات کے دینی و دنیوی نقصانات بیان کریں، پھر دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر آپس میں صلح کروادیں۔

کونسی صلح کروانا جائز نہیں؟

یاد رہے! کہ مسلمانوں میں وہی صلح کروانا جائز ہے، جو شریعت کے دائرے میں ہو، جبکہ ایسی صلح جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے، وہ جائز نہیں ہے، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح (جائز نہیں)، جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔"(ابوداؤد )

اللہ عزوجل ہمیں اتفاق و اتحاد کے ساتھ مل جل کر رہنے اور لڑائی جھگڑوں اور قطع تعلقی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم